(حديث مرفوع) اخبرنا الحسن بن الربيع، حدثنا ابو الاحوص، عن الاعمش، عن ابي صالح، قال: قال كعب: نجده مكتوبا: "محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم لا فظ، ولا غليظ، ولا صخاب بالاسواق، ولا يجزي بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويغفر، وامته الحمادون يكبرون الله عز وجل على كل نجد، ويحمدونه في كل منزلة، ويتازرون على انصافهم، ويتوضئون على اطرافهم، مناديهم ينادي في جو السماء صفهم في القتال، وصفهم في الصلاة سواء، لهم بالليل دوي كدوي النحل، مولده بمكة، ومهاجره بطيبة، وملكه بالشام".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، قَالَ: قَالَ كَعْبٌ: نَجِدُهُ مَكْتُوبًا: "مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا فَظٌّ، وَلَا غَلِيظٌ، وَلَا صَخَّابٌ بِالْأَسْوَاقِ، وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ، وَأُمَّتُهُ الْحَمَّادُونَ يُكَبِّرُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى كُلِّ نَجْدٍ، وَيَحْمَدُونَهُ فِي كُلِّ مَنْزِلَةٍ، وَيَتَأَزَّرُونَ عَلَى أَنْصَافِهِمْ، وَيَتَوَضَّئُونَ عَلَى أَطْرَافِهِمْ، مُنَادِيهِمْ يُنَادِي فِي جَوِّ السَّمَاءِ صَفُّهُمْ فِي الْقِتَالِ، وَصَفُّهُمْ فِي الصَّلَاةِ سَوَاءٌ، لَهُمْ بِاللَّيْلِ دَوِيٌّ كَدَوِيِّ النَّحْلِ، مَوْلِدُهُ بِمَكَّةَ، وَمُهَاجِرُهُ بِطَيْبَةَ، وَمُلْكُهُ بِالشَّامِ".
ابوصالح ذکوان سے مروی ہے کہ سیدنا کعب نے فرمایا: ہم نے یہ لکھا دیکھا ہے: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ کے رسول ہیں، نہ بد زبان، نہ سنگ دل، نہ بازاروں میں شور مچانے والے ہیں، اور نہ وہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں اس کے بجائے عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں، آپ کے امتی بہت ثنا خوانی کرنے والے ہوں گے۔ جو ہر ٹیلے پر چڑھتے ہوئے الله کی کبریائی کے گیت گائیں گے اور ہر منزل پر رکتے ہوئے ثناخوانی کریں گے۔ آدھی پنڈلی تک ازار پہنیں گے اور ہاتھ و پیر کا وضوء کرتے ہوں گے ان کا منادی آسمانوں میں ندا دیتا ہے کہ نماز اور میدان جنگ میں ان کی صف بندی ایک جیسی ہے۔ رات میں ان کی گنگناہٹ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش مکہ اور ہجرت کرنے کی جگہ (مدینہ) طیبہ اور حکومت ملک شام تک ہو گی۔
تخریج الحدیث: «مرسل وإسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 5]» یہ روایت مرسل ہے اور سند قابل قبول ہے۔ [طبقات ابن سعد 87/2/1]، [شرح السنة 3648]، [حلية الأولياء 387/5]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: مرسل وإسناده صحيح
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني خالد هو ابن يزيد، عن سعيد هو ابن ابي هلال، عن هلال بن اسامة، عن عطاء بن يسار، عن ابن سلام رضي الله عنه، انه كان يقول: "إنا لنجد صفة رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنا ارسلناك شاهدا ومبشرا ونذيرا، وحرزا، للاميين، انت عبدي ورسولي، سميته المتوكل، ليس بفظ، ولا غليظ، ولا صخاب بالاسواق، ولا يجزي بالسيئة مثلها، ولكن يعفو ويتجاوز، ولن اقبضه حتى يقيم الملة المتعوجة بان يشهد ان لا إله إلا الله، نفتح به اعينا عميا وآذانا صما، وقلوبا غلفا"، قال عطاء بن يسار: واخبرني ابو واقد الليثي: انه سمع كعبا يقول مثل ما قال ابن سلام.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي خَالِدٌ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدٍ هُوَ ابْنُ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أُسَامَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ ابْنِ سَلَامٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: "إِنَّا لَنَجِدُ صِفَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا، وَحِرْزًا، لِلْأُمِّيِّينَ، أَنْتَ عَبْدِي وَرَسُولِي، سَمَّيْتُهُ الْمُتَوَكِّلَ، لَيْسَ بِفَظٍّ، وَلَا غَلِيظٍ، وَلَا صَخَّابٍ بِالْأَسْوَاقِ، وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ مِثْلَهَا، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَتَجَاوَزُ، وَلَنْ أَقْبِضَهُ حَتَّى يُقِيمَ الْمِلَّةَ الْمُتَعَوِّجَةَ بِأَنْ يَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، نَفْتَحُ بِهِ أَعْيُنًا عُمْيًا وَآذَانًا صُمًا، وَقُلُوبًا غُلْفًا"، قَالَ عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ: وَأَخْبَرَنِي أَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ: أَنَّهُ سَمِعَ كَعْبًا يَقُولُ مِثْلَ مَا قَالَ ابْنُ سَلَامٍ.
عبدالله بن سلام کہا کرتے تھے ہم (توراة میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف یوں پاتے ہیں: ہم نے تم کو گواہ بنا کر، خوشخبری دینے اور ڈرانے والا اور اَن پڑھ قوم کی نگہبانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے، تم میرے بندے اور رسول ہو، میں نے جن کا نام متوکل رکھا ہے، جو نہ بدخو ہے اور نہ سنگ دل اور نہ بازاروں میں شور مچانے والا ہے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتا ہے، بجائے اس کے درگزر کرتا ہے، اور میں اس وقت تک ہرگز اس کی روح قبض نہ کروں گا جب تک کہ وہ ایک کجر و قوم کو «لا اله الا الله» کی گواہی کے ذریعہ سیدھا نہ کر دے اور اس کے ذریعہ نابینا آنکھیں بینا نہ ہو جائیں اور بہرے کان کھول نہ دیئے جائیں اور پردہ پڑے ہوئے دلوں کے پردے کھول نہ دیئے جائیں۔ عطا بن یسار نے کہا: مجھے ابوواقد اللیثی نے خبر دی ہے کہ انہوں نے حضرت کعب الاحبار کو بھی ایسا ہی کہتے سنا جیسا عبداللہ بن سلام نے بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح كاتب الليث وهو موقوف على ابن سلام، [مكتبه الشامله نمبر: 6]» اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن اس کے شواہد موجود ہیں۔ دیکھئے: [المعرفة والتاريخ للفسوي 274/3]، [دلائل النبوة للبيهقي 374/1]، نیز حدیث ابن عمرو بخاری میں [2151]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح كاتب الليث وهو موقوف على ابن سلام
(حديث مرفوع) اخبرنا زيد بن عوف، قال: حدثنا ابو عوانة، عن عبد الملك بن عمير، عن ذكوان ابي صالح، عن كعب: "في السطر الاول: محمد رسول الله، عبدي المختار، لا فظ، ولا غليظ، ولا صخاب في الاسواق، ولا يجزي بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويغفر، مولده بمكة، وهجرته بطيبة، وملكه بالشام، وفي السطر الثاني: محمد رسول الله، امته الحمادون يحمدون الله في السراء والضراء، يحمدون الله في كل منزلة، ويكبرونه على كل شرف، رعاة الشمس يصلون الصلاة إذا جاء وقتها ولو كانوا على راس كناسة، وياتزرون على اوساطهم، ويوضئون اطرافهم، واصواتهم بالليل في جو السماء كاصوات النحل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ عَوْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ ذَكْوَانَ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ كَعْبٍ: "فِي السَّطْرِ الْأَوَّلِ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، عَبْدِي الْمُخْتَارُ، لَا فَظٌّ، وَلَا غَلِيظٌ، وَلَا صَخَّابٌ فِي الْأَسْوَاقِ، وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ، مَوْلِدُهُ بِمَكَّةَ، وَهِجْرَتُهُ بِطَيْبَةَ، وَمُلْكُهُ بِالشَّامِ، وَفِي السَّطْرِ الثَّانِي: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، أُمَّتُهُ الْحَمَّادُونَ يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ، يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي كُلِّ مَنْزِلَةٍ، وَيُكَبِّرُونَه عَلَى كُلِّ شَرَفٍ، رُعَاةُ الشَّمْسِ يُصَلُّونَ الصَّلَاةَ إِذَا جَاءَ وَقْتُهَا وَلَوْ كَانُوا عَلَى رَأْسِ كُنَاسَةٍ، وَيَأْتَزِرُونَ عَلَى أَوْسَاطِهِمْ، وَيُوَضِّئُونَ أَطْرَافَهُمْ، وَأَصْوَاتُهُمْ بِاللَّيْلِ فِي جَوِّ السَّمَاءِ كَأَصْوَاتِ النَّحْلِ".
کعب الاحبار سے مروی ہے سطر اول میں ہے: محمد رسول میرے پسندیدہ بندے ہیں (جو) نہ بدخلق ہیں اور نہ سنگ دل اور نہ بازاروں میں شور و غل مچانے والے ہیں، نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں اس کے بجائے معاف و درگزر کرتے ہیں، ان کی جائے پیدائش مکہ اور جائے ہجرت مدینہ طیبہ اور حکومت شام تک ہے۔ دوسرے پیراگراف میں کہتے ہیں: محمد اللہ کے رسول ہیں، ان کے امتی بہت حمد کرنے والے ہیں جو خوش حالی و پریشانی میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا کریں گے، ہر منزل پر الله کی حمد کرتے ہیں اور ہر ٹیلے (بلند زمین) پر اللہ کی کبریائی کے گن گاتے ہیں، سورج کا دھیان رکھنے والے، جب نماز کا وقت آ جائے نماز پڑھتے ہیں چاہے کوڑے کے ڈھیر پر ہی کیوں نہ ہوں، آدھی پنڈلیوں تک کے ازار پہنیں گے، ہاتھ پیروں کا وضو کریں گے، ان کی رات کی صدائیں آسمان کے اندر شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ کی طرح ہوں گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده فيه زيد بن عوف وهو متروك وقد اتهمه أبو زرعة بالسرقة. وهو موقوف على كعب، [مكتبه الشامله نمبر: 7]» اس اثر کو امام دارمی کے علاوہ کسی نے ذکر نہیں کیا، زید بن عوف اس میں متروک ہیں اور یہ کعب الاحبار پر موقوف ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده فيه زيد بن عوف وهو متروك وقد اتهمه أبو زرعة بالسرقة. وهو موقوف على كعب
(حديث مرفوع) اخبرنا مجاهد بن موسى، حدثنا معن بن عيسى، حدثنا معاوية بن صالح، عن ابي فروة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، انه سال كعب الاحبار: كيف تجد نعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في التوراة؟، فقال كعب: "نجده محمد بن عبد الله يولد بمكة، ويهاجر إلى طابة، ويكون ملكه بالشام، وليس بفحاش، ولا صخاب في الاسواق، ولا يكافئ بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويغفر، امته الحمادون، يحمدون الله في كل سراء، وضراء ويكبرون الله على كل نجد، يوضئون اطرافهم، وياتزرون في اوساطهم، يصفون في صلاتهم كما يصفون في قتالهم، دويهم في مساجدهم كدوي النحل، يسمع مناديهم في جو السماء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ سَأَلَ كَعْبَ الْأَحْبَارِ: كَيْفَ تَجِدُ نَعْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي التَّوْرَاةِ؟، فَقَالَ كَعْبٌ: "نَجِدْهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يُولَدُ بِمَكَّةَ، وَيُهَاجِرُ إِلَى طَابَةَ، وَيَكُونُ مُلْكُهُ بِالشَّامِ، وَلَيْسَ بِفَحَّاشٍ، وَلَا صَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ، وَلَا يُكَافِئُ بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ، أُمَّتُهُ الْحَمَّادُونَ، يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي كُلِّ سَرَّاءَ، وَضَرَّاءَ وَيُكَبِّرُونَ اللَّهَ عَلَى كُلِّ نَجْدٍ، يُوَضِّئُونَ أَطْرَافَهُمْ، وَيَأْتَزِرُونَ فِي أَوْسَاطِهِمْ، يُصَفُّونَ فِي صَلاتِهِمْ كَمَا يُصَفُّونَ فِي قِتَالِهِمْ، دَوِيُّهُمْ فِي مَسَاجِدِهِمْ كَدَوِيِّ النَّحْلِ، يُسْمَعُ مُنَادِيهِمْ فِي جَوِّ السَّمَاءِ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کعب الاحبار سے دریافت کیا کہ آپ توراة میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا صفت پاتے ہیں؟ چنانچہ کعب نے کہا: ہم توراة میں یہ دیکھتے ہیں: محمد بن عبداللہ مکہ میں پیدا ہوں گے، ہجرت کر کے طابہ (مدینہ) جائیں گے، آپ کی حکمرانی شام تک ہو گی، نہ آپ فحش گو ہوں گے اور نہ بازاروں میں شور و غل کرنے والے ہوں گے، برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیں گے بلکہ معاف و درگزر کریں گے۔ آپ کے امتی بہت ثنا خواں ہوں گے جو پریشانی و خوش حالی (ہر حال میں) اللہ تعالی کی حمد و ثنا کریں گے، ہر ٹیلے و اونچائی پر الله اکبر کہیں گے، اپنے ہاتھ پیر کا وضو کریں گے اور کمر پر ازار باندھیں گے، نماز میں ویسی ہی صف بندی کریں گے جیسے میدان جنگ میں صف بندی کرتے ہوں گے، مساجد میں ان کی گنگناہٹ شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ کی طرح ہو گی، جن کی ندا آسمانوں میں سنی جائے گی۔
تخریج الحدیث: «إن ذكر ابن حبان عروة بن الحارث في ثقات التابعين جعل الحافظ يشير إلى أنه أبو فروة الذي يروي عن ابن عباس ونحن نشك في ذلك فإن كان هو فالإسناد صحيح وإلا فلعله من ترجمة ابن أبي حاتم في " الجرح والتعديل " 425/ 9 والله أعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 8]» ابن سعد نے طبقات میں اس اثر کو ذکر کیا ہے لیکن سند میں کلام ہے اور یہ سند بھی ضعیف ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إن ذكر ابن حبان عروة بن الحارث في ثقات التابعين جعل الحافظ يشير إلى أنه أبو فروة الذي يروي عن ابن عباس ونحن نشك في ذلك فإن كان هو فالإسناد صحيح وإلا فلعله من ترجمة ابن أبي حاتم في " الجرح والتعديل " 425/ 9 والله أعلم
جبیر بن نفیر حضرمی نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس ایسے رسول آئے ہیں جو نہ کمزور ہیں اور نہ سست تاکہ وہ غافل و پردہ پڑے ہوئے دلوں کو جگائیں، اندھی آنکھوں کو روشن کر دیں اور بہرے کانوں کو سنا دیں اور کجرو (ٹیڑھی) قوم و ملت کو سیدھا کر دیں یہاں تک کہ کہا جانے لگے «لا اله الا الله» یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔“
تخریج الحدیث: «مرسل إسناده ضعيف بقية بن الوليد مدلس تدليس التسوية وقد عنعن في هذا الإسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 9]» یہ روایت مرسل ضعیف ہے حافظ ابن حجر نے [فتح الباري 586/8] میں اس کو ذکر کیا ہے۔ بعض نسخوں میں راوی کا نام جبیر بن نضیر مکتوب ہے جو غلط ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: مرسل إسناده ضعيف بقية بن الوليد مدلس تدليس التسوية وقد عنعن في هذا الإسناد
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يزيد الحزامي، حدثنا إسحاق بن سليمان، عن عمرو بن ابي قيس، عن عطاء، عن عامر، قال: كان رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم له إليه حاجة، فمشى معه حتى دخل، قال: فإحدى رجليه في البيت والاخرى خارجة كانه يناجي، فالتفت، فقال: "اتدري من كنت اكلم؟ إن هذا ملك لم اره قط قبل يومي هذا، استاذن ربه ان يسلم علي، قال: إنا آتيناك او انزلنا القرآن فصلا، والسكينة صبرا، والفرقان وصلا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ إِلَيْهِ حَاجَةٌ، فَمَشَى مَعَهُ حَتَّى دَخَلَ، قَالَ: فَإِحْدَى رِجْلَيْهِ فِي الْبَيْتِ وَالْأُخْرَى خَارِجَة كَأَنَّهُ يُنَاجِي، فَالْتَفَتَ، فَقَالَ: "أَتَدْرِي مَنْ كُنْتُ أُكَلِّمُ؟ إِنَّ هَذَا مَلَكٌ لَمْ أَرَهُ قَطُّ قَبْلَ يَوْمِي هَذَا، اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ، قَالَ: إِنَّا آتَيْنَاكَ أَوْ أَنْزَلْنَا الْقُرْآنَ فَصْلًا، وَالسَّكِينَةَ صَبْرًا، وَالْفُرْقَانَ وَصْلًا".
عامر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص کو آپ کی ضرورت پیش آئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ چل پڑے (گھر میں) داخل ہوتے وقت ابھی ایک قدم اندر اور ایک قدم باہر ہی تھا کہ اس صحابی نے محسوس کیا کہ آپ کسی سے سرگوشی فرما رہے ہیں، آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”جانتے ہو میں کس سے سرگوشی کر رہا تھا؟ یہ فرشتہ تھا جسے آج سے قبل میں نے دیکھا نہیں۔ اس نے اپنے رب سے مجھ سے سلام کرنے کی اجازت لی، اللہ تعالی نے فرمایا: ہم نے تمہیں قرآن دیا جو (حق و باطل) میں فیصلہ کرنے والا ہے اور اطمینان و سکون صبر کے لئے دیا، فرقان ملانے کے لئے دیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «مرسل رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 10]» یہ مرسل روایت ہے اور صرف امام دارمی نے اسے روایت کیا ہے، اس کے راوی ثقات ہیں۔
(حديث مرفوع) اخبرنا مجاهد بن موسى، حدثنا ريحان هو ابن سعيد، حدثنا عباد هو ابن منصور، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن عطية، انه سمع ربيعة الجرشي، يقول: اتي النبي صلى الله عليه وسلم، فقيل له: لتنم عينك، ولتسمع اذنك، وليعقل قلبك، قال: "فنامت عيناي، وسمعت اذناي، وعقل قلبي"، قال: فقيل لي: سيد بنى دارا فصنع مادبة، وارسل داعيا، فمن اجاب الداعي، دخل الدار، واكل من المادبة، ورضي عنه السيد، ومن لم يجب الداعي، لم يدخل الدار، ولم يطعم من المادبة، وسخط عليه السيد، قال:"فالله: السيد، ومحمد: الداعي، والدار: الإسلام، والمادبة: الجنة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا رَيْحَانُ هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادٌ هُوَ ابْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَطِيَّةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَبِيعَةَ الْجُرَشِيَّ، يَقُولُ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: لِتَنَمْ عَيْنُكَ، وَلْتَسْمَعْ أُذُنُكَ، وَلْيَعْقِلْ قَلْبُكَ، قَالَ: "فَنَامَتْ عَيْنَايَ، وَسَمِعَتْ أُذُنَايَ، وَعَقَلَ قَلْبِي"، قَالَ: فَقِيلَ لِي: سَيِّدٌ بَنَى دَارًا فَصَنَعَ مَأْدُبَةً، وَأَرْسَلَ دَاعِيًا، فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ، دَخَلَ الدَّارَ، وَأَكَلَ مِنْ الْمَأْدُبَةِ، وَرَضِيَ عَنْهُ السَّيِّدُ، وَمَنْ لَمْ يُجِبْ الدَّاعِيَ، لَمْ يَدْخُلْ الدَّارَ، وَلَمْ يَطْعَمْ مِنْ الْمَأْدُبَةِ، وَسَخِطَ عَلَيْهِ السَّيِّدُ، قَالَ:"فَاللَّهُ: السَّيِّدُ، وَمُحَمَّدٌ: الدَّاعِي، وَالدَّارُ: الْإِسْلَامُ، وَالْمَأْدُبَةُ: الْجَنَّةُ".
عطیہ نے ربیعہ جرشی کو سنا وہ کہتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (فرشتہ) آیا اور کہا: آپ کی آنکھ کو سو جانا چاہیے، کانوں کو سننا اور دل کو سمجھنا چاہیے، فرمایا: ”لہٰذا میری آنکھ لگ گئی، کانوں نے سن لیا اور دل نے سمجھ لیا، فرمایا: مجھ سے کہا گیا: ایک مالک نے گھر بنا کر دسترخوان لگایا اور ایک بلانے والے کو (دعوت کے لئے) بھیجا، پس جس نے اس داعی کی دعوت قبول کر لی وہ اس گھر میں بھی داخل ہوا اور دسترخوان سے تناول کیا اور مالک مکان بھی خوش ہو گیا اور جس نے اس بلانے والے کی دعوت قبول نہ کی وہ نہ گھر میں داخل ہو سکا، نہ دسترخوان سے کچھ کھایا اور وہ مالک مکان بھی اس سے ناراض ہو گیا۔“ اس حدیث میں مالک سے مراد ذات باری تعالی اور داعی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وہ دار (گھر) اسلام اور دسترخوان جنت ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عباد بن منصور، [مكتبه الشامله نمبر: 11]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [معجم الطبراني 4597] لیکن صحیح بخاری میں اس کا شاہد موجود ہے، دیکھئے [صحيح البخاري 7281]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عباد بن منصور
(حديث مرفوع) اخبرنا الحسن بن علي، حدثنا ابو اسامة، عن جعفر بن ميمون التميمي، عن ابي عثمان النهدي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى البطحاء، ومعه ابن مسعود، فاقعده وخط عليه خطا، ثم قال: "لا تبرحن فإنه سينتهي إليك رجال فلا تكلمهم، فإنهم لن يكلموك"، فمضى رسول الله صلى الله عليه وسلم حيث اراد، ثم جعلوا ينتهون إلى الخط لا يجاوزونه، ثم يصدرون إلى النبي صلى الله عليه وسلم حتى إذا كان من آخر الليل، جاء إلي فتوسد فخذي، وكان إذا نام، نفخ في النوم، نفخا فبينا رسول الله صلى الله عليه وسلم متوسد فخذي، راقد، إذ اتاني رجال كانهم الجمال عليهم ثياب بيض الله اعلم ما بهم من الجمال حتى قعد طائفة منهم عند راسه، وطائفة منهم عند رجليه، فقالوا بينهم: ما راينا عبدا اوتي مثل ما اوتي هذا النبي صلى الله عليه وسلم: إن عينيه لتنامان، وإن قلبه ليقظان، اضربوا له مثلا: سيد بنى قصرا ثم جعل مادبة فدعا الناس إلى طعامه وشرابه، ثم ارتفعوا، واستيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك، فقال:"اتدري من هؤلاء؟"، قلت: الله ورسوله اعلم، قال:"هم الملائكة"، قال:"وهل تدري ما المثل الذي ضربوه؟"، قلت: الله ورسوله اعلم، قال:"الرحمن بنى الجنة فدعا إليها عباده، فمن اجابه، دخل جنته، ومن لم يجبه، عاقبه وعذبه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَيْمُونٍ التَّمِيمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الْبَطْحَاءِ، وَمَعَهُ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَأَقْعَدَهُ وَخَطَّ عَلَيْهِ خَطًّا، ثُمَّ قَالَ: "لَا تَبْرَحَنَّ فَإِنَّهُ سَيَنْتَهِي إِلَيْكَ رِجَالٌ فَلَا تُكَلِّمْهُمْ، فَإِنَّهُمْ لَنْ يُكَلِّمُوكَ"، فَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ أَرَادَ، ثُمَّ جَعَلُوا يَنْتَهُونَ إِلَى الْخَطِّ لَا يُجَاوِزُونَهُ، ثُمَّ يَصْدُرُونَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ، جَاءَ إِلَيَّ فَتَوَسَّدَ فَخِذِي، وَكَانَ إِذَا نَامَ، نَفَخَ فِي النَّوْمِ، نَفْخًا فَبَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَسِّدٌ فَخِذِي، رَاقِدٌ، إِذْ أَتَانِي رِجَالٌ كَأَنَّهُمْ الْجِمَالُ عَلَيْهِمْ ثِيَابٌ بِيضٌ اللَّهُ أَعْلَمُ مَا بِهِمْ مِنْ الْجَمَالِ حَتَّى قَعَدَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رَأْسِهِ، وَطَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، فَقَالُوا بَيْنَهُمْ: مَا رَأَيْنَا عَبْدًا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ هَذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ عَيْنَيْهِ لَتَنَامَانِ، وَإِنَّ قَلْبَهُ لَيَقْظَانُ، اضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا: سَيِّدٌ بَنَى قَصْرًا ثُمَّ جَعَلَ مَأْدُبَةً فَدَعَا النَّاسَ إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ، ثُمَّ ارْتَفَعُوا، وَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ:"أَتَدْرِي مَنْ هَؤُلَاءِ؟"، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:"هُمْ الْمَلَائِكَةُ"، قَالَ:"وَهَلْ تَدْرِي مَا الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوهُ؟"، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:"الرَّحْمَنُ بَنَى الْجَنَّةَ فَدَعَا إِلَيْهَا عِبَادَهُ، فَمَنْ أَجَابَهُ، دَخَلَ جَنَّتَهُ، وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ، عَاقَبَهُ وَعَذَّبَهُ".
ابوعثمان النہدی سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کنکریلی زمین کی طرف نکلے، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ کے ہمراہ تھے، آپ نے انہیں بٹھایا اور ان کے ارد گرد ایک دائرہ کھینچ دیا اور فرمایا: ”تم اسی دائرے کے اندر رہنا کیونکہ تمہارے پاس بہت سے لوگ آئیں گے، تم ان سے کوئی بات نہ کرنا، وہ بھی تم سے کوئی بات نہ کریں گے“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرف جانے کا ارادہ رکھتے تھے اسی طرف چلے گئے اور پھر اس دائرے کے ارد گرد لوگ آنے لگ گئے لیکن اس خط کے اندر کوئی نہیں آیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے رہے یہاں تک کہ جب رات کا آخری پہر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور میری ران کا تکیہ لگایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تو خراٹے لیتے تھے، آپ اسی حال میں میری ران پر سر رکھے سو رہے تھے کہ چند آدمی آ گئے، جو بڑے خوبصورت تھے، ان کے بدن پر سفید کپڑے تھے، اللہ تعالی خوب جانتا ہے ان کے اندر جو خوبصورتی و جمال تھا پھر ان میں سے ایک گروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے اور ایک گروہ آپ کے پیروں کے پاس بیٹھ گیا، پھر وہ آپس میں کہنے لگے، ہم نے کوئی بندہ ایسا نہیں دیکھا جس کو وہ کچھ ملا ہو جو انہیں نبی کریم (محمد) صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیاٍ ہے، ان کی آنکھیں تو سوتی ہیں دل جاگتا ہے۔ ان کی مثال اس سردار کی سی ہے جس نے ایک محل بنایا اور اس میں دسترخوان لگایا اور لوگوں کو کھانے پینے کی دعوت دی، پھر وہ لوگ چلے گئے اور اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیدار ہو گئے۔ فرمایا: ”تم جانتے ہو یہ کون لوگ تھے؟“ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول ہی اس کو خوب جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ فرشتے تھے“، فرمایا: ”اور تم نے اس مثال کو سمجھا جو انہوں نے بیان کی؟“ میں نے کہا: اللہ ورسولہ اعلم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اللہ) رحمٰن نے جنت بنائی اور اپنے بندوں کو اس کی طرف بلایا پس جس نے اس کی دعوت قبول کی وہ اس کی جنت میں داخل ہو گیا اور جس نے اس کی دعوت قبول نہ کی وہ اس کو سزا و عذاب دے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 12]» دیکھئے: [مسند أحمد 399/1]، [ترمذي 2861 وقال: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه]۔