مقدمه مقدمہ 42. باب مَنْ لَمْ يَرَ كِتَابَةَ الْحَدِيثِ: حدیث کی عدم کتابت کا بیان
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ سے قرآن کریم کے علاوہ کچھ نہ لکھو، اور کسی نے مجھ سے قرآن کے علاوہ جو کچھ بھی لکھا ہے اسے مٹا دے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 464]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أبى يعلی 1288]، [صحيح ابن حبان 64]، [تقييد العلم ص: 31-32]۔ نیز دیکھئے: [فتح الباري 208/1] وضاحت:
(تشریح احادیث 460 سے 464) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا: صحابہ و تابعین کی ایک جماعت نے حدیث لکھنے کو ناپسند کیا اور یہ اچھا سمجھا تھا کہ جس طرح انہوں نے حدیث یاد کی وہ بھی حدیث حفظ کر لیں۔ اور کتابتِ حدیث سے ابتدائے امر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا، اور یہ اس لئے کہ قرآن و حدیث خلط ملط نہ ہو جائے، بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث لکھنے کی اجازت دیدی تھی، چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما وغیرہ لکھا کرتے تھے جیسا کہ اگلے باب میں آرہا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتابت حدیث کی اجازت چاہی تو آپ نے انہیں اس کی اجازت نہ دی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 465]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2667]، [الالماع للقاضي ص: 148]، [المحدث الفاصل 362]، [الجامع للخطيب 461]، [تقييد العلم ص: 32] و [جامع بيان العلم 335] یہ حکم شروع اسلام میں تھا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام شعبی رحمہ اللہ کہا کرتے تھے: اے شباک! کیا تمہارے لئے کوئی حدیث لوٹائی گئی ہے؟ میں نہیں چاہتا کہ میرے لئے بھی کوئی حدیث دوبارہ لوٹائی جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 466]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تاريخ أبى زرعه 1981]، [الجامع 461]، لیکن اس میں ہے: «يقول يا شباك أرد عليك؟ ما قلت لأحد قط رد على (باب) إعاده المحدث الحديث حال الرواية ليحفظ» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں: میں نے امام مالک بن انس رحمہ اللہ کو کہتے سنا کہ ابن شہاب زہری ایک حدیث کے کر آئے، میں نے ان سے راستے میں ملاقات کی اور لگام تھام لی، پھر عرض کیا: اے ابوبکر! مجھے وہی حدیث دوبارہ سنایئے جو آپ بیان کر چکے ہیں، فرمایا: کیا دوبارہ سننا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا: آپ دوبارہ نہیں سنتے تھے؟ فرمایا نہیں، میں نے عرض کیا: اور لکھتے بھی نہیں تھے؟ فرمایا: نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 467]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تاريخ أبى زرعه 1381]، [المحدث الفاصل 782] و [الجامع 461] وضاحت:
(تشریح احادیث 464 سے 467) اس سے ان کی قوّتِ حافظہ، توجہ اور چاہت ثابت ہوتی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا: قتادہ حدیث لکھنا ناپسند کرتے تھے، اور جب معلوم ہوتا کہ لکھا جا چکا ہے تو ناپسند کرتے اور اپنے ہاتھ سے مٹا دیتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير بن أبي عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 468]»
محمد بن کثیر کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ نیز امام اوزاعی رحمہ اللہ سے کتابتِ حدیث کی اباحت بھی مروی ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 340] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير بن أبي عطاء
ابوالمغيرہ (حجاج بن عبدالقدوس) نے خبر دی کہ امام اوزاعی رحمہ اللہ اس کو مکروہ سمجھتے تھے (یعنی حدیث کی کتابت)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 469]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن کہیں دوسری جگہ نہیں مل سکی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
منصور سے مروی ہے کہ امام ابراہیم نخعی علم کی کتابت مکروہ سمجھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 470]»
اس کی سند صحیح ہے، اور امام ابراہیم نخعی نے ایسا فرمایا ہے۔ دیکھئے: [العلم 160] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر مجھے کتاب بنانی ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط کی کتاب بناتا۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 471]»
اس کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 48] و [المحدث الفاصل 366، 368] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
عبداللہ بن عون سے مروی ہے کہ میں نے حماد کو امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے پاس لکھتے دیکھا تو امام ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: کیا میں نے تم کو لکھنے سے منع نہیں کیا تھا؟ حماد نے جواب دیا کہ بس اطراف لکھے ہیں (یعنی اشارے لکھے ہیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 472]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6481]، [العلم 126، 135، 161]، [جامع بيان العلم 400]، [حلية الأولياء 225/4] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابراہیم سے مروی ہے کہ عبیدہ نے مجھ سے کہا: میری طرف سے کوئی کتاب نہ بنانا۔ (یعنی کچھ لکھنا نہیں کہ کتاب بن جائے اور باقی رہے۔)
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 473]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6494، 6502]، [جامع بيان العلم 362] و [تقييد العلم ص: 46] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ہشام بن حسان نے کہا: میں نے امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے صرف حدیث الأعماق لکھی تھی، پھر جب یاد کر لی تو اسے مٹا دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 474]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 373] وضاحت:
(تشریح احادیث 467 سے 474) حدیث الأعماق سے مراد غالباً امام مسلم کی یہ حدیث ہے: «لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ.» دیکھئے: [صحيح مسلم 2897] ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مروان بن محمد نے کہا: میں نے سنا: سعید بن عبدالعزیز فرماتے تھے: میں نے کبھی کوئی حدیث نہیں لکھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 475]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 367] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابراہیم (بن یزید) نے فرمایا: میں نے کبھی کوئی حدیث نہیں لکھی۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 476]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 367] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
ابراہیم نے کہا: میں نے عبیده (ابن عمر السلمانی) سے چمڑے کا ٹکڑا طلب کیا تاکہ اس میں لکھ لوں تو انہوں نے کہا: اے ابراہیم! مجھ سے کوئی کتاب باقی نہ رکھنا (یعنی لکھی ہوئی چیز باقی نہ رکھنا)۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 477]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ تخریج کے لئے اثر قم (473) ملاحظہ کیجئے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
ابراہیم نے عبیدہ سے مذکورہ بالا الفاظ بیان کئے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 478]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 63/6]۔ نیز مذکورہ بالا اثر ملاحظہ کیجئے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
ابراہیم کاپیوں میں حدیث لکھنا ناپسند کرتے تھے، اور فرماتے تھے: یہ مصحف کے مانند ہو جائے گا۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 479]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6360]، [جامع بيان العلم 365] و [تقييد العلم ص: 48]، اس سند میں ابوعوانہ کا نام وضاح بن عبداللہ اور ابومعشر کا نام زیاد بن کلیب ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
یحییٰ نے کہا: میں نے اپنی کتاب میں دیکھا کہ زیاد الکاتب نے لکھا: ابومعشر سے مروی ہے جس طرح چاہو لکھو۔
تخریج الحدیث: «إلى قوله في الحديث الشريف " الحديث في الكراريس " إسناده جيد وإلى نهاية الحديث الشريف " كيف شئت " إسناده صحيح وهو وجادة، [مكتبه الشامله نمبر: 480]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور طرق تحمل حدیث میں یہ «وجادة» کی قسم سے ہے، «و انفرد به الدارمي» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إلى قوله في الحديث الشريف " الحديث في الكراريس " إسناده جيد وإلى نهاية الحديث الشريف " كيف شئت " إسناده صحيح وهو وجادة
نعمان بن قیس سے مروی ہے کہ عبیدہ بن عمرو نے وفات سے پہلے اپنی کتابیں منگائیں اور انہیں مٹا دیا، نیز فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ کچھ لوگ انہیں پائیں اور انہیں ان کے مناسب مقام پر نہ رکھیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 481]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6353]، [طبقات ابن سعد 63/6]، [العلم لأبي خيثمه 112]، [تقييد العلم ص: 61، 62] و [جامع بيان العلم 363، 364] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مجاہد رحمہ اللہ نے کاپیوں میں علم کی باتیں لکھنے کو ناپسند فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 482]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن کچھ اسلاف سے بسند صحیح کتابت کی کراہت ثابت ہے۔ یہ اثر دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6359] و [تقييد العلم ص: 47] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ علم جب تک لوگوں سے زبانی حاصل کیا جاتا رہا تو قوی تھا تا آنکہ مصحف میں لکھا جانے لگا، تو پھر نااہل لوگوں نے اسے اٹھانا یا اس میں داخل ہونا شروع کر دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 483]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 64] و [جامع بيان العلم 371] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
یونس بن عبید نے کہا: امام حسن بصری رحمہ اللہ لکھتے لکھاتے تھے اور امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نہ لکھتے اور نہ لکھاتے تھے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 484]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 387، 390] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
ابراہیم تیمی نے کہا: سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو خبر لگی کہ کچھ لوگوں کے پاس کتاب ہے جس پر وہ فخر کرتے ہیں، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسے مٹا دیا اور پھر فرمایا: تم سے پہلے اہل کتاب اس لئے ہلاک ہوئے کہ وہ اپنے علماء کی کتابوں کی طرف متوجہ ہو گئے اور رب کی کتاب کو ترک کر دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 485]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 56] و [جامع بيان العلم 319 نحوه] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے عبیدہ (بن عمرو السلمانی) سے کہا: میں آپ سے جو سنتا ہوں اسے لکھ لوں؟ فرمایا: نہیں، میں نے کہا: اگر لکھا ہوا مل جائے تو اسے پڑھ لوں؟ فرمایا: نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 486]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 45]، [جامع بيان العلم 360]، [مصنف ابن أبى شيبه 6356]، [العلم لأبي خيثمه 150] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابونضرہ نے کہا: میں نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ہمیں لکھائیں گے نہیں؟ ہم حفظ نہیں کر سکتے، انہوں نے فرمایا: نہیں، ہم تمہیں ہرگز نہیں لکھائیں گے اور اس لکھے ہوئے کو قرآن نہیں بننے دیں گے، ہاں ہم سے احادیث یاد کر لو جس طرح ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 487]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابونضرة کا نام منذر بن مالک ہے۔ حوالہ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 37]، [جامع بيان العلم 338، 340]، [مصنف ابن أبى شيبه 6491]، [المحدث الفاصل 363] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام اوزاعی رحمہ اللہ سے مروی ہے: میں نے ابوکثیر کو کہتے سنا، کہا: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: ابوہریرہ نہ لکھتے ہیں اور نہ لکھاتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير الصنعاني ولكنه لم ينفرد به بل تابعه عليه المعافى بن عمران وهو ثقة فيصح الإسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 488]»
اس روایت کی سند محمد بن کثیر کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن المعافیٰ بن عمران سے بھی اسی طرح مروی ہے جو ثقہ ہیں۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 42]، [العلم 140]، [جامع بيان العلم 357] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير الصنعاني ولكنه لم ينفرد به بل تابعه عليه المعافى بن عمران وهو ثقة فيصح الإسناد
ابوبردہ سے مروی ہے کہ وہ اپنے والد کی حدیث لکھا لیا کرتے تھے، ابوموسیٰ نے انہیں ایسا کرتے دیکھا تو اس کو مٹا دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لجهالة أبي موسى، [مكتبه الشامله نمبر: 489]»
اس اثر کی سند ابوموسیٰ کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن [المحدث الفاصل 369] و [تقييد العلم ص: 39، 40] میں صحیح سند سے مروی ہے۔ نیز دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6495]، [العلم 153] و [جامع بيان العلم 347] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لجهالة أبي موسى
قریش بن انس نے بیان کیا کہ ابن عون نے مجھ سے کہا: قسم اللہ کی میں نے کبھی کوئی حدیث نہیں لکھی، اور ابن عون نے کہا: ابن سیرین رحمہ اللہ نے بھی فرمایا: نہیں، قسم الله کی میں نے کبھی کوئی حدیث نہیں لکھی۔
تخریج الحدیث: «إلى قوله في الحديث الشريف " ما كتبت حديث قط " أسناده فيه قريش بن أنس وقد اختلط وهو من رجال البخاري في صحيحه. وإلى نهاية الحديث الشريف " هؤلاء وما تقول " إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 490]»
اس روایت کی سند میں قریش بن انس کو اختلاط ہوگیا تھا، اور اس اثر کو رامهرمزی نے [المحدث الفاصل 368] میں ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إلى قوله في الحديث الشريف " ما كتبت حديث قط " أسناده فيه قريش بن أنس وقد اختلط وهو من رجال البخاري في صحيحه. وإلى نهاية الحديث الشريف " هؤلاء وما تقول " إسناده صحيح
عبداللہ بن عون نے کہا: مجھ سے محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مروان بن الحکم نے جو مدینہ کے گورنر تھے، مجھ سے چاہا کہ میں انہیں کچھ لکھاؤں، لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ راوی نے کہا: امیر (محترم) نے اپنے اور باقی زنان خانہ (گھر کے لوگوں) کے درمیان پردہ کرا دیا، پھر گورنر (صاحب) کے مصاحب ان کے پاس اس جگہ آئے اور باتیں کرنے لگے، پھر مروان اپنے مصاحبین کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میرا خیال ہے ہم نے ان کے ساتھ خیانت کی ہے۔ پھر میری (زید بن ثابت کی) طرف متوجہ ہوئے، میں نے کہا: کیسی خیانت؟ کہا: میرے خیال میں ہم نے آپ کی خیانت کی ہے، کہا بات کیا ہے؟ کہا: ہم نے ایک آدمی کو حکم دیا تھا کہ اس پردے کے پیچھے بیٹھ جائے اور جو کچھ یہ لوگ فتویٰ دیں وہ اور جو کچھ آپ کہیں اس کو لکھ لے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 491]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور یہ روایت [مصنف ابن أبى شيبه 6497]، [جامع بيان العلم 349] میں صحیح سند سے مروی ہے۔ نیز ابن سعد نے [الطبقات 117/2/2] اور طبری نے [المعجم الكبير 4871] میں بھی اسے ذکر کیا ہے لیکن ان کی سند ضعیف ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
منصور (بن المعتمر) نے کہا: میں نے ابراہیم سے کہا کہ سالم (ابن ابی الجعد) آپ سے زیادہ حدیث میں کامل ہیں، ابراہیم نے کہا: کیونکہ سالم لکھ لیا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 492]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 203/6]، [المحدث الفاصل 349]، [تقييد العلم ص: 108-109] و [جامع بيان العلم 385] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عمرو بن قیس نے کہا: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر میں اپنے والد کے ساتھ تعزیت اور خلافت کی مبارکباد دینے کے لئے یزید بن معاویہ کے پاس حوارّین گیا، کیا دیکھتے ہیں کہ ان کی مسجد میں ایک آدمی کہہ رہا ہے: خبردار دیکھو! قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اشرار سر چڑھائے جائیں گے اور اخیار (اچھے لوگ) گرائے جائیں گے، سنو! قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ قول کا اظہار ہو گا اور عمل محفوظ رہے گا۔ سنو! اشراط ساعۃ میں سے ہے کہ ”مثناة“ (ثانوی کتاب) پڑھی جائے گی اور کوئی اس میں تغیر کرنے والا نہ ہو گا، عرض کیا گیا: یہ ”مثناة“ کیا ہے، فرمایا: قرآن کے علاوہ کسی کتاب لکھنے کی درخواست کرنا، لہٰذا تم قرآن کو ہی تھامے رکھنا، اسی کے ذریعہ تم کو ہدایت ملی ہے، اور اسی کے ذریعہ تم کو اجر ملے گا، اور اس کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔ میں نے نہیں پہچانا کہ یہ کون آدمی ہیں؟ پھر میں نے یہ حدیث حمص میں بیان کی تو جماعت کے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ تم انہیں پہچانتے نہیں؟ میں نے کہا: نہیں، تو انہوں نے کہا: یہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 493]»
اس اثر کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [المستدرك 554/4]، [غريب الحديث لأبي عبيد 282/4] وضاحت:
(تشریح احادیث 474 سے 493) حوّارین حمص کے قریب ایک گاؤں کا نام ہے جس میں یزید بن معاویہ کا انتقال ہوا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
مره ہمدانی نے کہا کہ ابوقره کندی شام سے ایک کتاب لے کر آئے اور اسے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیا، انہوں نے اس کتاب کو پڑھا اور ایک تھالی منگائی اور پانی طلب کیا اور اس کو رگڑ رگڑ کر دھو دیا اور فرمایا: تم سے پہلے لوگ ان کی دیگر کتاب کے پیچھے لگنے اور اپنی اصلی کتاب ترک کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ حصین سے مروی ہے: مرہ نے کہا: اگر وہ کتاب و سنت میں سے کچھ ہوتا تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اسے نہ مٹاتے، وہ نوشتہ اہل کتاب کی کتب میں سے تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 494]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ اس میں ابوزبید کا نام عبثر بن قاسم ہے اور حصین: ابن عبدالرحمٰن اور مرة: ابن شرحبیل ہیں۔تخریج کے لئے دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6355]، [تقييد العلم ص: 53] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
یحییٰ بن جعدہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لکھی ہوئی کندھے کی ہڈی لائی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی قوم کی گمراہی کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنے نبی کی لائی ہوئی چیز سے بےرغبتی کریں اور اپنے نبی کو چھوڑ کر کسی اور نبی کی طرف مائل ہوں یا اپنی کتاب کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کی طرف مائل ہوں۔“ اور اس کی تائید میں الله تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «﴿أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾» [عنكبوت: 51/29] ”کیا انہیں یہ کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جو ان پر پڑھی جارہی ہے اس میں رحمت بھی ہے اور نصیحت بھی ان لوگوں کے لئے جو ایمان والے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 495]»
یہ روایت مرسل صحیح ہے۔ دیکھئے: [مراسيل أبى داؤد 454]، [تفسير ابن جرير 7/21] و [فتح الباري 68/9] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
اشعث (ابن ابی الشعثاء) نے اپنے والد سے روایت کیا جو کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے تھے کہ میں نے ایک آدمی کے پاس صحیفہ دیکھا جس میں مکتوب تھا: «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر»، میں نے کہا: مجھے بھی لکھا دو، اس نے گویا بخل سے کام لیا، پھر مجھ سے وعدہ کیا کہ اس صحیفہ کو مجھے دیدے گا، پھر میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو دیکھا وہی صحیفہ ان کے سامنے ہے۔ فرمانے لگے: اس مکتوب میں بدعت، فتنہ اور گمراہی ہے، تم سے پہلے لوگوں کو یہ اور اسی طرح کی چیزوں نے ہلاک کیا، انہوں نے اسے لکھا اور ان کی زبانوں نے اس کا چٹخارہ لیا اور وہی دلوں میں بیٹھ گیا، پس میں ہر آدمی کو تاکید کرتا ہوں کہ کسی بھی کتاب کی وہ جگہ جانتا ہو تو اسے بتا دے اور اسے قسم دیتا ہوں، شعبہ نے کہا: اور انہوں نے قسم کھلائی۔ راوی نے کہا: میرا گمان ہے کہ انہوں نے قسم کھا کر بتایا کہ اگر وہ کتاب ہند کے کسی مقام پر جو کوفہ سے دور ہو گی میں وہاں پہنچوں گا چاہے پیدل چل کر ہی جانا پڑے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 496]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابوالشعثاء کا نام سلیم بن اسود ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 55] و [مصنف ابن أبى شيبه 6498] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بنی اسرائیل نے ایک کتاب لکھی، انہوں نے اس کی پیروی کی اور توراۃ کو چھوڑ دیا۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 497]»
اس روایت کی سند تو صحیح ہے لیکن موقوف ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 56] و [مجمع الزوائد 676، 940] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
عفان (بن عبداللہ بن مرداس المحاربی) نے اپنے والد (عبدالله) سے روایت کیا کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے تھے: بیشک کچھ لوگ میرا کلام سنتے ہیں پھر جا کر اسے لکھتے ہیں اور میں کسی کے لئے حلال نہیں کرتا کہ وہ اللہ عزوجل کی کتاب کے علاوہ کچھ لکھے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 498]»
اس اثر کی سند جید ہے، اور اس معنی کی روایت اثر رقم (494، 496) پرگذر چکی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 493 سے 498) یہ سب اس خوف کی بنا پر تھا کہ کتاب اللہ اور سنّتِ رسول اللہ خلط ملط نہ ہو جائے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
ابن شبرمہ نے کہا: میں نے امام شعبی رحمہ اللہ کو کہتے سنا: میں نے سوداء کو بیضاء میں کبھی نہیں لکھا، اور نہ کبھی کسی انسان سے دوبارہ کوئی حدیث سننے کی درخواست کی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 499]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 365]، [العلم 28]، [تاريخ بغداد 229/12]، [الجامع لأخلاق الراوي 1832]، [جامع بيان العلم 368] و [الحلية 321/4] وضاحت:
(تشریح حدیث 498) اس سے ان کی قوّتِ حافظ کا پتہ چلتا ہے، ان تمام آثار سے یہ معلوم ہوا کہ اسلاف کرام کتابتِ حدیث سے زیادہ قوّتِ حافظہ کو ترجیح دیتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے [فتح الباري 208/1] میں لکھا ہے، اسلاف کرام نے کہا ہے: صحابہ کرام کی ایک جماعت کچھ بھی لکھنے کو ناپسند کرتی تھی، وہ یہ چاہتے تھے کہ جس طرح انہوں نے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دلوں میں محفوظ رکھا ہے اسی طرح وہ بھی حفظ کریں، لکھیں نہیں، لیکن جب انہوں نے سستی و کاہلی اور طلابِ علم میں پست ہمتی دیکھی تو علمِ نبوّت کے ضائع ہو جانے سے ڈر گئے اور لکھنے کی اجازت دے دی۔ جیسا کہ اگلے باب میں آ رہا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|