مقدمه مقدمہ 8. باب مَا أُعْطِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْفَضْلِ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو فضیلت عطا کی گئی اس کا بیان
سیدنا عبداللہ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء علیہم السلام اور آسمان والوں پر فضیلت عطا کی، لوگوں نے پوچھا: اے عباس کے بیٹے! آسمان والوں پر کیسی فضیلت عطا فرمائی۔ انہوں نے جواب دیا: اللہ تعالی نے آسمان میں رہنے والوں کے لئے فرمایا: ”ان میں سے کوئی بھی کہدے کہ اللہ کے سوا میں عبادت کے لائق ہوں تو ہم اسے دوزخ کی سزا دیں گے، ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔“ [الأنبياء: 29/21] (یعنی بزرگی کے باوجود وہ جہنم رسید ہوں گے) اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا: ”اے نبی! بے شک ہم نے آپ کو ایک ظاہر فتح دی ہے تاکہ جو کچھ تیرے گناہ آگے کئے ہوئے اور جو پیچھے رہے اللہ تعالی معاف فرما دے۔“ [الفتح: 2،1/48] (یعنی آپ جو بھی کریں اگلے پچھلے سب گناہ معاف ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی مواخذہ نہ ہو گا)۔ انہوں نے کہا: پھر تمام انبیاء پر آپ کی کیا فضیلت ہے؟ جواب دیا: اللہ تعالی نے فرمایا: ”ہم نے ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کر دے۔“ [ابراهيم: 4/14] اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ تعالی نے فرمایا: ”ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے بھیجا ہے۔“ [سبا: 28/34] پس آپ کی رسالت تمام جن و انسان کے لئے ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 47]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور یہ اثر [مستدرك حاكم 350/2]، [معجم الطبراني الكبير 11610]، [دلائل النبوة 486/5] وغیرہ میں منقول ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ساتھی بیٹھے آپ کا انتظار کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے قریب ہوئے اور ان کی باتیں سنیں، کسی نے کہا: تعجب ہے اللہ تعالی نے اپنی مخلوق میں سے ابراہیم علیہ السلام کو دوست بنا لیا اور ابراہیم علیہ السلام اللہ کے خلیل ہیں، دوسرے نے کہا: اللہ تعالیٰ کا موسیٰ علیہ السلام سے کلام کرنا اس سے بھی عجیب تر ہے، ایک نے کہا: اور عیسیٰ علیہ السلام تو الله تعالی کے کلمہ «كُنْ» سے پیدا ہو گئے اور روح ان کی اس کی طرف سے ہے، کسی نے کہا: اور آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پسند کیا، ان کو چن لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے آئے، سلام کیا اور فرمایا: میں نے تمہاری باتیں سنیں اور سنا تمہارا تعجب کرنا ابراہیم کے خلیل ہونے پر اور وہ ایسے ہی ہیں، اور موسیٰ کے اللہ سے نجی (سرگوشی کرنے والا) ہونے پر اور وہ بھی ایسے ہی ہیں، اور تمہیں تعجب ہے عیسٰی کے کلمۃ اللہ و روحہ ہونے پر وہ بھی ایسے ہی ہیں، اور آدم کے پسندیدہ ہونے پر وہ بھی ایسے ہی ہیں (یعنی یہ سب صحیح ہے) اور سنو! میں (بھی) الله کا محبوب ہوں اور اس پر فخر نہیں اور میں ہی قیامت کے دن حمد کے جھنڈے کو اٹھانے والا ہوں جس کے نیچے آدم علیہ السلام اور ان کے بعد کے لوگ ہوں گے۔ اس پر بھی کوئی فخر نہیں، اور میں ہی سب سے پہلا شفاعت کرنے والا اور وہ پہلا شخص ہوں جس کی شفاعت قبول کی جائے گی، اس پر بھی کوئی فخر نہیں، اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جو جنت کے دروازوں کی زنجیریں کھٹکھٹائے گا اور وہ میرے لئے کھول دی جائیں گی اور اللہ تعالی مجھے جنت میں داخل فرمائے گا اور میرے ساتھ فقراء مومنین ہوں گے اس میں بھی فخر نہیں، اور میں اللہ کے نزدیک اگلے پچھلے سب لوگوں میں سب سے زیادہ معزز و مکرم ہوں اس پر بھی کوئی فخر نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف زمعه، [مكتبه الشامله نمبر: 48]»
یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے لیکن اس کے شواہد ہیں جو صحیح ہیں۔ دیکھئے: [ترمذي 3620]، [مسند ابي يعلی 3959، 3964]، [ابن حبان 6242] نیز آگے دیکھئے حدیث نمبر 53۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف زمعه
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میں سب سے پہلے نکلنے والا ہوں (یعنی قبر سے) اور میں ان کا راہبر ہوں گا جب وہ (اللہ کی درگاہ میں) حاضر ہوں گے، اور میں ان کا خطیب ہوں گا جب وہ خاموش ہوں گے، اور میں جب وہ روک لئے جائیں گے ان کی شفاعت و سفارش کرنے والا ہوں اور جب مایوس ہو جائیں گے میں ہی خوشخبری سنانے والا ہوں، عز و شرف اور کنجیاں اس دن میرے ہی پاس ہوں گی اور آدم علیہ السلام کی اولاد میں اپنے رب کے نزدیک میں سب سے زیادہ معزز و مکرم ہوں، ہزاروں خادم میرے ارد گرد گھومیں گے گویا کہ وہ چھپائے ہوئے ہیرے اور بکھرے ہوئے موتی ہوں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 49]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ امام ترمذی نے [جامع 3614] میں ذکر کیا اور حسن غریب کہا ہے۔ بیہقی نے بھی [دلائل النبوة 484/5] میں روایت کیا ہے وہ بھی ضعیف ہے لیکن یہ صفات دیگر صحیح احادیث میں بھی موجود ہیں جیسا کہ اگلی احادیث میں آگے آ رہا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمام رسولوں کا قائد ہوں اور اس میں کوئی فخر نہیں، میں خاتم النبیین ہوں اس میں بھی فخر نہیں، میں سب سے پہلا شفاعت کرنے والا اور سب سے پہلا شخص ہوں جس کی شفاعت قبول کی جائے گی اور کوئی فخر نہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 50]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [التاريخ الكبير للبخاري 286/4]، [ابن حبان فى الثقات 455/6]، [المعجم الأوسط 172]، [دلائل النبوة 480/5] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
روایت ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں سب سے پہلا شخص ہوں جو جنت کے دروازے کو کھٹکھٹاؤں گا“، انس نے کہا: گویا کہ اب بھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھ کو حرکت کرتے دیکھ رہا ہوں۔ سفیان رحمہ اللہ نے اس کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ابوعبداللہ نے اپنی انگلیاں جمع کیں اور انہیں حرکت دی، راوی نے کہا: ثابت نے ان سے کہا: تمہارا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے مس ہوا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں، کہا: مجھے دیجئے تاکہ میں اس کا بوسہ دے سکوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف علي بن زيد بن جدعان، [مكتبه الشامله نمبر: 51]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے اور اسے [ترمذي 3147] و [حميدي 1238] نے روایت کیا ہے۔ لیکن آپ کا سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹانا درست ہے، کما تقدم اور جیسا کہ امام احمد نے [مسند 144/3] میں صحيح سند سے ذکر کیا ہے۔ [صحيح مسلم 196] میں بھی روایت ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 47 سے 51) ان احادیث سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت معلوم ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے شخص ہوں گے جو جنت کا دروازہ کھلوائیں گے۔ ❀ راوی نے اپنے قول کی صداقت کے لئے جو کیفیت دیکھی بیان کر دی۔ ❀ اسلاف کرام کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت۔ ❀ بزرگ ہستی کے ہاتھ کا بوسہ دینا درست ہے۔ بعض علماء نے اسے صرف والدین کے ساتھ خاص کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف علي بن زيد بن جدعان
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جنت میں سب سے پہلا شفاعت کرنے والا شخص ہوں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 52]»
اس حدیث کی سند صحيح ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 196] و [مصنف ابن ابي شيبه 11697] و [دلائل النبوة 479/5] وغيرهم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ فرماتے تھے: ”میں وہ سب سے پہلا شخص ہوں کہ میرے سر سے قیامت کے دن زمین شق ہو گی اور کچھ فخر نہیں، مجھے حمد باری تعالیٰ کا جھنڈا عطا کیا جائے گا اور کچھ فخر نہیں، میں قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار ہوں اس میں بھی کوئی فخر نہیں، اور قیامت کے دن سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والا بھی میں ہی ہوں اور کچھ فخر نہیں، میں جنت کے دروازے کے پاس آ کر اس کے کُنڈے بجاؤں گا تو وہ کہیں گے یہ کون ہے؟ میں جواب دوں گا کہ میں محمد ہوں وہ میرے لئے دروازے کھول دیں گے تو میں اپنے سامنے جبار (قہر و غضب والا) کو پاؤں گا۔ میں سجدے میں گر جاؤں گا (رب ذوالجلال) فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھایئے اور گفتگو کیجئے، آپ کی بات سنی جائے گی، آپ مانگئے مراد پوری کی جائے گی، شفاعت کیجئے آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔ چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا: میری امت اے میرے پروردگار! ارشاد ہوگا اپنی امت کے پاس جائیے جس کے دل میں بھی جو کے دانے برابر بھی ایمان ہو اس کو جنت میں داخل کر دیجئے۔ میں جاؤں گا اور جس کے دل میں بھی اتنا ایمان پاؤں گا اسے جنت میں داخل کرا دوں گا، سامنے میرے (میرا رب) جبار ہو گا میں اسے سجدہ کروں گا، ارشاد ہو گا: اے محمد سر اٹھائیے اور بات کیجئے، سنی جائے گی، آپ جو مانگیں گے دیا جائے گا، شفاعت کریں گے قبول کی جائے گی، میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا: اے رب! میری امت، میری امت، ارشاد ہو گا جاؤ اپنی امت کے پاس اور جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان ہو اسے جنت میں داخل کر دو، میں امت کے پاس آؤں گا اور جس کے دل میں رائی کے دانے بھر بھی ایمان پاؤں گا اسے جنت میں داخل کرا دوں گا، اس وقت تک حساب کتاب سے فراغت ہو چکی ہو گی اور میری امت میں سے جو باقی بچے ہوں گے جہنم میں داخل کر دیئے جائیں گے، دوزخ والے کہیں گے تم سے زیادہ کوئی غنی نہیں، تم اللہ کی عبادت کرتے تھے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک و ساجھی بھی نہیں بناتے تھے، زبردست تسلط والا (جبار) فرمائے گا: میری عزت کی قسم میں انہیں جہنم سے آزاد کر دوں گا، چنانچہ وہ بھی دوزخ سے نکال لئے جائیں گے اور ان کے چہرے جھلسے ہوئے ہوں گے، وہ سب نہر حياة میں ڈالے جائیں گے اور وہ اس میں سے ایسے اگیں گے جیسے پانی کے خس و خاشاک میں سے (سبزہ) اُگتا ہے، اور ان کی آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا یہ اللہ کے آزاد کردہ لوگ ہیں، پھر ان کو لے جا کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا، ان سے اہل جنت کہیں گے یہ جہنمی لوگ ہیں، جبار فرمائے گا (نہیں) یہ جبار کے آزاد کردہ ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح فهو صدوق ولكنه كثير الخطأ وكانت فيه غفلة، [مكتبه الشامله نمبر: 53]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اسے [امام أحمد 144/3]، [ابن منده 877] اور بیہقی نے [دلائل النبوة 479/5] میں ذکر کیا ہے۔ امام احمد نے صحیح سند سے بھی اسے [مسند 145/3] میں ذکر کیا ہے لہٰذا اس کا معنی صحیح ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح فهو صدوق ولكنه كثير الخطأ وكانت فيه غفلة
عبدالرحمن بن غنم نے روایت کیا کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اترے، آپ کا پیٹ چاک کیا پھر فرمایا: سخت مضبوط دل ہے جس میں دو سننے والے کان اور دو دیکھنے والی آنکھیں ہیں، محمد اللہ کے آخری رسول اور حاشر (جمع کرنے والے) ہیں۔ آپ کے اخلاق پاکیزہ ہیں اور آپ کی زبان سچی ہے اورنفس مطمئن ہے۔ امام دارمی نے فرمایا: «وكيع» کے معنی شدید کے ہیں۔
تخریج الحدیث: «في إسناده ثلاث علل: عبد الله بن صالح ومعاوية بن يحيى ضعيفان وهو مرسل أيضا عبد الرحمن بن غنم تابعي وليس صحابيا، [مكتبه الشامله نمبر: 54]»
اس روایت کی سند میں کئی خرابیاں ہیں، ابن غنم تابعی ہیں لہٰذا مرسل ضعیف ہے لیکن شق بطن کا واقعہ مشہور اور صحیح ہے، نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا صفات بھی صحیح اور معروف و مشہور ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده ثلاث علل: عبد الله بن صالح ومعاوية بن يحيى ضعيفان وهو مرسل أيضا عبد الرحمن بن غنم تابعي وليس صحابيا
سیدنا عمرو بن قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے رحمت کی گھڑی میں دیکھا اور اس نے (زمانے کو) میرے لئے مختصر کر دیا، اس طرح ہم سب (قوموں) کے آخر میں آئے، لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے لوگ ہوں گے، میں (تم سے) ایک بات بنا فخر کے کہہ رہا ہوں: ابراہیم اللہ کے خلیل ہیں، اور موسیٰ اللہ کے مخلص دوست، اور میں اللہ کا محبوب ہوں، حمد کا جھنڈا قیامت کے دن میرے ہاتھ میں ہو گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھ سے میری امت کے بارے میں وعدہ فرمایا اور تین چیزوں سے انہیں چھٹکارہ نصیب فرمایا ہے: ان سب کو قحط سالی میں مبتلا نہ کرے گا (یعنی ساری امت پر یکبارگی عذاب نہ آئے گا) نہ ان کا کوئی دشمن ان سب کو نیست و نابود کر سکے گا اور ساری امت کو گمراہی پر جمع نہ ہونے دے گا۔“
تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: عبد الله بن صالح والانقطاع، [مكتبه الشامله نمبر: 55]»
یہ سند دو علتوں کی وجہ سے ضعیف ہے، عبدالله بن صالح ضعیف اور اس میں انقطاع ہے۔ دیکھئے: [البداية والنهاية 270/6]، [كنز العمال 32080] وضاحت:
(تشریح حدیث 55) یعنی ساری امت نہ قحط سالی میں مبتلا ہو گی، نہ جڑ سے ختم ہو گی، اور نہ ہی سب کے سب یکبارگی گمراہ ہوں گے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده علتان: عبد الله بن صالح والانقطاع
|