مقدمه مقدمہ 39. باب مَا يُتَّقَى مِنْ تَفْسِيرِ حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَوْلِ غَيْرِهِ عِنْدَ قَوْلِهِ: حدیث کی تفسیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول میں دوسروں کے قول سے بچنے کا بیان
معتمر نے اپنے باپ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی تفسیر سے اسی طرح بچنا چاہیے جس طرح قرآن پاک کی تفسیر سے بچا جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 444]»
اس روایت کی سند جید ہے، لیکن امام دارمی کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کیا تمہیں خوف نہیں آتا کہ تم عذاب دیئے جاؤ یا تمہیں دھنسا دیا جائے یہ کہنے کے عوض: «قال رسول الله وقال فلان» یعنی اللہ کے رسول نے یہ فرمایا اور فلاں نے یہ کہا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 445]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الفقيه 379، 380] و [جامع بيان العلم 2095، 2097] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا کہ اللہ کی کتاب میں کسی کی رائے (قابل قبول) نہیں اور ائمہ کرام کی رائے بھی اس بارے میں قبول ہو گی جس میں کتاب اللہ یا سنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ نہ ملے، اور جس سنت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری کیا اس میں رائے کی گنجائش نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 446]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الإبانة 100]، [الشريعة: 59]، [جامع بيان العلم 1307] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبیداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ نے خطبہ دیا تو فرمایا: لوگو! بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کے بعد کوئی نبی نہیں بھیجا، اور نہ اس کتاب کے بعد جو آپ پر نازل فرمائی، کوئی کتاب نازل کی، پس جو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں حلال فرما دیا وہ قیامت تک حلال ہے، اور جو اپنے نبی کی زبان سے حرام فرما دیا وہ قیامت تک حرام ہے، سنو! میں قاضی نہیں بلکہ تنقید کرنے والا ہوں، اور میں بدعت ایجاد کرنے والا بھی نہیں، بلکہ اتباع کرنے والا ہوں، اور تم سے بہتر بھی نہیں ہوں سوائے اس کے کہ میرے اوپر تم سے زیادہ بوجھ (ذمے داری) ہے، اور سنو! اللہ کی مخلوق میں سے کوئی ایسا نہیں جس کی اللہ کی معصیت میں اطاعت کی جائے، سنو! کیا میں نے تمہیں سنا دیا؟
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 447]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 250/5] و [المعرفة للفسوي 574/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
ہشام بن حجیر نے کہا: امام طاؤوس رحمہ اللہ نماز عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھا کرتے تھے، چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے کہا: اسے ترک کر دیجئے، امام طاؤوس رحمہ اللہ نے کہا: اس سے اس لئے منع کیا گیا ہے تاکہ یہ سیڑھی نہ بنائی جائے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: بلاشبہ عصر کے بعد کسی بھی نماز سے روکا گیا ہے، اس لئے میں نہیں جانتا کہ تمہیں اس پر عذاب دیا جائے گا یا اجر، اس لئے کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے: کسی مومن مرد یا عورت کو الله اور اس کے رسول کے فرمان کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، اور الله اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا، وہ صریح گمراہی میں پڑے گا [الاحزاب: 36/33] ۔ سفیان نے کہا: «تُتَّخَذَ سُلَّمًا» (یعنی) فرماتے ہیں عصر کے بعد سے رات تک نماز پڑھے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 448]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ امام بیہقی نے [سنن 453/2] میں، ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 2339] میں اور خطیب نے [الفقيه والمتفقه 386] میں اسی سند سے نیز [385] میں دوسری سند سے اور عبدالرزاق نے [مصنف 3975] میں ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس توراۃ کا ایک نسخہ لے کر تشریف لائے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ توریت کا نسخہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور عمر رضی اللہ عنہ اسے پڑھنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک بدلنے لگا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کھونے (گم کرنے) والی مائیں تمہیں کھو دیں (گم کر دیں)، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو دیکھتے نہیں ہو؟ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی طرف دیکھا تو کہا: میں اللہ کے غضب اور اس کے رسول کے غضب سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، ہم اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین اور محمد کے نبی ہونے سے راضی ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، اگر موسیٰ علیہ السلام بھی تمہارے لئے ظاہر ہو جائیں اور تم ان کی اتباع کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے (گمراہ ہو جاؤ گے) اگر وہ (موسیٰ) زندہ ہوتے اور میری نبوت کو پا لیتے تو وہ بھی میری اتباع کرتے۔“
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 449]»
یہ سند مجالد کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن حدیث حسن ہے، اس کو ابن ابی شیبہ نے [مصنف 6472] میں، ابن ابی عاصم نے [السنة 50] میں اور ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 1495، 1497] میں اسی سند سے ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
آل عمر کے ایک شخص ابورباح نے کہا: سعید بن المسيب رحمہ اللہ نے عصر کے بعد ایک آدمی کو کثرت سے دو رکعت نماز پڑھتے دیکھا، اس نے دریافت کیا: اے ابومحمد! (سعید بن المسیب کی کنیت) کیا اللہ تعالیٰ نماز پڑھنے پر مجھے عذاب دے گا؟ انہوں نے کہا نہیں (نماز پڑھنے پر تو نہیں) بلکہ سنت کی خلاف ورزی پر اللہ تعالیٰ تمہیں ضرور عذاب دے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 450]»
اس روایت کی سند جید ہے، اور ابورباح کا نام عبداللہ بن رباح القرشی ہے، اور اسے خطیب نے [الفقيه والمتفقه 387] میں سند حسن سے ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 443 سے 450) ان آثار و اقوال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کی ترغیب اور بدعات و مختلف آراء سے بچنے کی تلقین ہے، اور وہ کام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اس سے دور رہنے کی ہدایت اور دردناک عذاب کی وعیدِ شدید ہے، چاہے وہ خلافِ سنّت کام نماز ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ اس آخری روایت میں مذکور ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
|