مقدمه مقدمہ 54. باب الرَّجُلُ يُفْتِي بِشَيْءٍ ثُمَّ يَبْلُغُهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَرْجِعُ إِلَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فتویٰ دینے کے بعد اس سے رجوع کرنے کا بیان
اعمش سے مروی ہے، ابراہیم نے کہا: (دوسرا شخص) امام کے بائیں کھڑا ہو گا، میں نے انہیں بتایا سمیع الزیات کے طریق سے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (نماز میں) اپنے دائیں جانب کھڑا کیا، اور پھر انہوں نے (ابراہیم نے) اسی کو اپنا مسلک بنا لیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 666]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ اور یہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی متفق علیہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 859] و [صحيح مسلم 763]۔ نیز دیکھئے: [مسند الموصلي 2465]، [ابن حبان 1190] و [مسند الحميدي 477] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عقار بن مغیرہ بن شعبہ نے روایت کیا اپنے والد سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے پوچھا: تم میں سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنین کے بارے میں سنا؟ پس سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں غلام یا لونڈی (دیت میں) دینے کا فیصلہ کیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر لوگوں سے پوچھا، تو جس کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا تھا وہ کھڑا ہوا اور اس نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنین کے بدلے میں میرے لئے ایک غلام یا لونڈی کا فیصلہ دیا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر لوگوں سے پوچھا، تو جس پر یہ فیصلہ صادر فرمایا تھا (مقضی علیہ) نے کھڑے ہو کر عرض کیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اوپر جنین کے گرنے پر ایک غلام یا کنیز کا فیصلہ فرمایا، تو میں نے عرض کیا: کیا آپ میرے اوپر ایسے جنین کی دیت کا فیصلہ فرماتے ہیں جس نے نہ کھایا، نہ پیا، نہ رویا، نہ چلایا، یعنی نہ ولادت کے وقت آواز نکالی، نہ بولا، اگر آپ اس کو چھوڑ دیں کہ یہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کا دم معاف کیا جائے، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی چیز کے ساتھ اس کی طرف جھکے اور فرمایا شعر کہتے ہو؟ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ مجھے معلوم نہ ہو جاتا تو میں دو دیتوں کو ایک ہی قرار دے دیتا۔
تخریج الحدیث: «الحديث صحيح متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 668]»
اس روایت کی سند میں محمد بن حمید ضعیف ہے، لیکن حدیث دیۃ الجنین متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5760، 6904] و [مسلم 1682] و [مسند موصلي 5917] و [صحيح ابن حبان 6018، 6020] وضاحت:
(تشریح احادیث 660 سے 665) اس روایت سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اپنی رائے سے رجوع کرنا ثابت ہوا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث صحيح متفق عليه
ایوب نے فرمایا: اگر تم اپنے استاذ کی غلطی جاننا چاہو تو ان کے علاوہ کسی دوسرے کی مجالست اختیار کرو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 669]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ سلام: ابن ابی مطیع ہیں، دیکھئے: [حلية الأولياء 9/3] و [تاريخ أبى زرعة 2072] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ایوب نے بیان کیا کہ ہم نے (عدت کا) تذکرہ کیا کہ ایک آدمی مکہ میں مرتا ہے، میں نے کہا: جس دن اس کی خبر ملے گی اسی دن سے عدت شمار ہو گی، جیسا کہ حسن قتادہ اور ہمارے دیگر اصحاب کا قول ہے۔ ایوب نے کہا: مجھ سے طلق بن حبیب نے ملاقات کی اور کہا: آپ میرے لئے بہت معزز ہیں، اور آپ ایسے شہر میں ہیں جہاں نظر زیادہ لگتی ہے، اور میں آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا، نیز طلق نے کہا: آپ نے اس شہر کے رہنے والوں کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔ اس لئے بھی آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا، میں نے کہا: کیا اس مسئلے میں اختلاف ہے؟ طلق نے کہا: جی ہاں، اس عورت کی عدت جس دن اس کا شوہر مرا ہے اسی دن سے شمار ہو گی، ایوب نے کہا: میں سعید بن جبیر سے ملا اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے بھی کہا: جس دن وفات ہوئی اسی دن سے عدت شمار ہو گی۔ پھر میں نے مجاہد سے پوچھا تو انہوں نے بھی کہا: «عدتها» جس دن اس کی وفات ہوئی، پھر عطاء بن ابی رباح سے میں نے پوچھا، انہوں نے بھی کہا: جس دن وفات پائی، اور ابوقلابہ سے پوچھا، انہوں نے بھی کہا: وفات کے دن سے عدت شمار ہو گی۔ محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے پوچھا، انہوں نے بھی کہا: وفات کے دن سے شمار ہو گی۔ ایوب نے کہا: مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی یہی کہا کہ وفات کے دن سے عدت شمار ہو گی، اور میں نے عکرمہ کو بھی کہتے سنا «من يوم توفي» کہا، اور جابر بن زید نے کہا: «من يوم توفي» اور کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی یہی کہتے تھے کہ جس دن وفات پائی ہے۔ حماد نے کہا: میں نے لیث (ابن ابی سلیم) کو سنا، حکم سے بیان کرتے تھے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «من يوم توفي» ۔ ایوب نے کہا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (۱) جس دن خبر ملے اس دن سے عدت شمار ہو گی، (۲) امام دارمی عبد الله بن عبد الرحمن نے کہا: میری رائے ہے جس دن وفات پائی اسی دن سے عدت شمار ہو گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 670]»
(1) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس اثر کو ابن ابی شیبہ نے [مصنف 198/5] میں دو سند سے ذکر کیا ہے، جن میں سے ایک سند ضعیف ہے۔ (2) اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المصنف 196/5-198]، [سنن سعيد بن منصور 288/1] و [مصنف عبدالرزاق 327/6] و [المحلي 311/10] و [سنن البيهقي 425/7] وضاحت:
(تشریح احادیث 665 سے 667) امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ صحابہ و تابعین کے فیصلے کی وجہ سے میں نے اپنی رائے بدل دی اور وہ یہ کہ شوہر کا جس دن انتقال ہوا اسی دن سے عدت شمار ہوگی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|