مقدمه مقدمہ 16. باب اتِّبَاعِ السُّنَّةِ: سنت کی پیروی کا بیان
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی، پھر آپ نے بڑی مؤثر نصیحت فرمائی جس سے آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور دل لرز گئے، ایک شخص نے کہا یہ تو آخری الوداع کہنے والے کا وعظ ہے، پس آپ ہمیں وصیت فرما دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور سمع و طاعت (یعنی امیر کی بات سننے اور اس پر عمل کرنے) کی وصیت کرتا ہوں چاہے وہ (امیر) حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا، پس تم میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑنا، ان کو دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، دین میں نئی باتوں سے (بدعات سے) بچنا اس لئے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔“ ابوعاصم نے ایک مرتبہ کہا: «إِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ» یعنی نئے کاموں سے بچنا اس لئے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 96]»
اس حدیث کو [ابوداؤد 4607] و [ترمذي 2676] و [ابن ماجه 42-44] و [البغوي 102] و [ابن حبان رقم 45-104/1] اور [أحمد 126/4] وغیرہم نے بسند صحيح ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 95) اس حدیث میں تقویٰ اور اطاعتِ امیر کی وصیت اور اتباعِ سنّت کا حکم ہے۔ خلفائے راشدین کی فضیلت اور ان کی اتباع کا حکم ہے۔ بدعات و نئی باتوں سے اجتناب کا حکم ہے۔ اختلاف رونما ہونے کی پیشین گوئی اور نجات کے راستے کی نشاندہی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام زہری رحمہ اللہ نے کہا: ہمارے اسلاف کہتے تھے سنت کی پیروی نجات (کا ذریعہ) ہے اور علم تیزی سے سمٹ جائے گا، علم کی بقا دین و دنیا کی بقا ہے اور علم کے مٹ جانے سے سب کچھ مٹ جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 97]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ لیکن یہ امام زہری رحمہ اللہ کا قول ہے۔ دیکھئے: [شرح اعتقاد أهل السنة للالكائي 136]، [حلية الأولياء 369/3]، [الزهد لابن المبارك 817] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبدالله الدیلمی نے کہا ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ پہلے پہل دین کا اٹھنا سنت کے چھوڑنے کی وجہ سے ہو گا، دین ایک ایک سنت کے بدلے اٹھ جائے گا جس طرح رسی کی ایک ایک گرہ کھل جاتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 98]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المعرفة والتاريخ للفسوي 386/3]، [شرح اعتقاد أهل السنة 127]، [الإبانة لابن بطة 229] بعض نسخوں میں ہے: «إِنَّ أَوَّلَ ذَهَابَ الدِّيْنِ تَرْكُ السُّنَّةِ» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حسان بن عطيہ نے کہا: جس قوم نے بھی اپنے دین میں بدعت ایجاد کی اللہ تعالی ان سے اسی کے مثل سنت اٹھا لیتا ہے، پھر وہ سنت اللہ تعالی قیامت تک واپس نہیں لائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 99]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 73/6]، [المعرفة 386/3]، [شرح اعتقاد أهل السنة 129]، [الإبانة لابن بطه 328] لیکن یہ موقوف روایت ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 96 سے 99) یہ تمام روایات جو گرچہ ائمہ کرام کے اقوال ہیں، لیکن ان سے سنّت کی فضیلت، تمسک بالسنۃ کی اہمیت ثابت ہوتی ہے، نیز یہ کہ ایک بدعت ایجاد ہوتی ہے تو اسی طرح کی ایک سنّت معدوم ہو جاتی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوقلابہ نے کہا: جس آدمی نے بدعت ایجاد کی تو اس نے تلوار (قتل) کو حلال کر دیا۔ (یعنی وہ قابل گردن زدنی ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 10]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الشريعة للآجري ص: 68]، [طبقات ابن سعد 134/1/7]، [شرح اعتقاد أهل السنة 247]، [اعتصام للشاطبي 55/1] اور یہ ابوقلابہ کا قول ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوقلابہ نے کہا کہ خواہشات کی پیروی کرنے والے گمراہ ہیں، میری رائے میں ان کا ٹھکانہ جہنم کے سوا کچھ نہیں، تجربے کے طور پر دیکھ لو جس نے بھی کوئی (نیا) قول یا بات اپنائی اس کا معاملہ قتل تک پہنچا ہے۔ بیشک نفاق کی بہت سی صورتیں ہیں، پھر انہوں نے یہ آیات تلاوت کیں: ”ان میں سے وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہمیں اپنے فضل سے مال دے گا تو ہم صدقہ وخیرات کریں گے اور نیکو کاروں میں سے ہو جائیں گے۔“ (توبۃ 75/9)
”اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو خیرات کے مال کی تقسیم میں آپ پر عیب جوئی کرتے ہیں اگر انہیں اس میں سے کچھ مل جائے تو خوش اور نہ ملے تو فورا ہی ناراض ہوجاتے ہیں۔“ (توبۃ 58/9) ”اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو پیغمبر کو ایذا پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں وہ ہلکے کان کا ہے آپ کہہ دیجئے کہ وہ کان تمہارے بھلے کے لئے ہے۔“ (توبۃ: 61/9) سو ان کی بات میں اختلاف ہو گیا اور شک و تکذیب پر انہوں نے اجتماع کر لیا، ان کا قول مختلف ہے اور یہ قتل کے مستحق ہیں، مجھے ان کا ٹھکانہ جہنم کے علاوہ کچھ نہیں لگتا۔ حماد نے کہا: پھر ایوب نے اس حدیث کو ذکر کرتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم وہ (یعنی ابوقلابہ) بڑے ہوشیار سمجھدار فقہاء میں سے تھے۔ تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 101]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ محدثین میں سے صرف امام دارمی نے اسے ذکر کیا لیکن ابن سعد نے [طبقات 134/1/7] میں، آجری نے [الشريعة ص: 67] میں ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
|