مقدمه مقدمہ 6. باب مَا أُكْرِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَنِينِ الْمِنْبَرِ: منبر کی آواز و گفتگو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم کا بیان
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے تنے کا سہارا لے کر خطبہ دیا کرتے تھے، پھر جب منبر بن گیا (اور آپ اس پر تشریف لے گئے «كما فى رواية البخاري») تو وہ تنا رونے لگا حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے اور اپنا ہاتھ اس پر پھیرا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 31]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 3583]، [ترمذي 505] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبداللہ بن بریدہ نے اپنے باپ سے روایت کیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو کھڑے ہو جاتے اور دیر تک کھڑے رہتے اور یہ آپ پر شاق گزرنے لگا تھا، چنانچہ ایک کھجور کا تنا لایا گیا اور گڑھا کھود کر اسے آپ کے پہلو میں کھڑا کر دیا گیا، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیتے تو دیر تک اس سے ٹیک لگائے کھڑے رہتے، ایک آدمی جو مدینہ آئے ہوئے تھے جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس تنے کے پاس کھڑے دیکھا تو اپنے پاس بیٹھے شخص سے کہا کہ اگر مجھے معلوم ہو جاتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی چیز پر میری تعریف کریں گے جو انہیں آرام دے تو ان کے لئے ایسی نشست گاہ بنا دیتا جس پر آپ کھڑے ہو سکتے اور اس پر چاہے جتنا بیٹھتے اور جتنا چاہتے کھڑے رہتے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں میرے پاس لے کر آو“، چنانچہ انہیں آپ کے رو برو لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ تین یا چار سیڑھی کا منبر بنائیں جو آج مدینہ میں موجود ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں راحت محسوس کی، اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس تنے سے دور ہوئے اور جو چیز (منبر) آپ کے لئے بنائی گئی اس کے قریب جانے لگے تو وہ تنا اداس ہو کر اونٹنی کی طرح باریک آواز سے رونے لگا۔ عبداللہ بن بریدہ نے اپنے والد سے روایت کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تنے کے رونے کی آواز سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف واپس لوٹے اور دست مبارک اس پر رکھا اور فرمایا: ”اگر تم چاہو تو جس جگہ لگے ہو اسی میں گڑا رہنے دوں اور تم جس حال میں ہو برقرار رہو، اور اگر تم چاہو تو جنت میں لگا دوں اور جنت کی نہروں اور چشموں سے سیراب ہو اور تیری روئیدگی اچھی ہو اور تو پھل دے اور اللہ کے ولی تیرے پھل کھائیں“، راوی کا خیال ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بار فرمایا ” «نعم قد فعلت» ٹھیک ہے میں یہی کروں گا۔“ راوی نے استفسار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے یہ اختیار کیا کہ میں اسے جنت میں لگا دوں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده فيه ضعيفان: محمد بن حميد وصالح بن حيان، [مكتبه الشامله نمبر: 32]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے اور تنے کے رونے کا قصہ صحیح ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے، لیکن یہ سیاق صحیح سند سے مروی نہیں ہے۔ اس کو ابن حبان نے [ثقات 156/8] میں ذکر کیا ہے، نیز دیکھئے: [مجمع الزوائد 3132 بتحقيق الداراني]۔ والله اعلم قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده فيه ضعيفان: محمد بن حميد وصالح بن حيان
روایت ہے سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما سے کہ منبر بنائے جانے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تنے کا سہارا لے کر کھڑے ہوتے تھے، جب منبر بنا لیا گیا تو وہ تنا رونے لگا یہاں تک کہ ہم نے اس کے رونے کی آواز سنی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس پر رکھا تو وہ خاموش ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 33]»
0 قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک لکڑی کا سہارا لے کر خطبہ دیا کرتے تھے، پس جب منبر بنا لیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر تشریف فرما ہوئے تو وہ لکڑی اونٹنی کی طرح رونے لگی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس پر رکھا تو وہ چپ ہو گئی۔
تخریج الحدیث: «صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 34]»
0 قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: صحيح
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ لکڑی اس طرح روئی جیسے وہ اونٹنی روتی ہے جس کا بچہ چھین لیا گیا ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 35]»
ان تینوں روایات کی اصل [صحيح بخاري 449، 914، 3585] اور [مسند أحمد 293/3] و [صحيح ابن حبان 6508] میں موجود ہے۔ نیز دیکھئے: [مسند أبى يعلی 2177] و [البداية والنهاية 128/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
طفیل نے روایت کیا اپنے والد سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہ جب مسجد (نبوی) کی چھت تنوں پر تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے تنے کے پاس نماز پڑھتے اور اس کا سہارا لے کر خطبہ دیتے تھے، آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے کہا ہم آپ کے لئے بیٹھنے کی جگہ بنا دیتے ہیں جس پر آپ کھڑے ہوں اور لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور خطبہ بھی سن سکیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی چنانچہ تین سیڑھی کا منبر بنایا گیا، اور جہاں آپ نے حکم دیا وہ منبر رکھ دیا گیا، اور جب رسول اللہ ن صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اس منبر کی طرف جانے لگے اور اس تنے کے پاس سے گزرے تو وہ بھینسے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا، آپ منبر کی طرف تشریف لے گئے، آپ نماز اسی تنے کے پاس پڑھتے تھے اور جب مسجد نبوی کی ترمیم ہوئی تو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اس تنے کو لے گئے اور وہ انہیں کے پاس رہا یہاں تک کہ بوسیدہ ہو گیا اور اسے دیمک نے کھا لیا اور وہ ریزہ ریزہ ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل عبد الله بن محمد بن عقيل، [مكتبه الشامله نمبر: 36]»
اس واقعے کی سند حسن درجے کو پہنچتی ہے اور اسے امام احمد نے [مسند أحمد 138/5] اور [ابن ماجه 1414] وبیہقی نے [دلائل النبوة 306] میں ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل عبد الله بن محمد بن عقيل
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک تنے سے لگ کر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک رومی آدمی آپ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میں آپ کے لئے منبر بنائے دیتا ہوں جس پر کھڑے ہو کر آپ خطبہ دیا کریں، چنانچہ آپ کے لئے وہ منبر بنا دیا گیا جو آج تم دیکھتے ہو۔ راوی نے کہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس منبر پر خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو وہ تنا اس طرح رونے لگا جیسے اونٹنی کا بچہ باریک آواز سے روتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور اس تنے کے پاس تشریف لے گئے، اسے چمٹا لیا تو وہ چپ ہو گیا، آپ نے حکم دیا کہ گڑھا کھود کر اسے دفن کر دیا جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف مجالد بن سعيد، [مكتبه الشامله نمبر: 37]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے اور اسے [ابن ابي شيبه 11798] نے اور بیہقی نے [دلائل النبوة 308] میں ابویعلی نے [مسند 1067] میں مختصرا ذکر کیا ہے جس کی سند حسن ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف مجالد بن سعيد
صَعِقْ نے بیان کیا کہ میں نے حسن بصری رحمہ اللہ کو کہتے سنا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اپنی پشت (مبارک) لکڑی سے لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے، جب لوگوں کی کثرت ہوئی تو آپ نے سوچا کہ سب آپ کی آواز سنیں، چنانچہ آپ نے حکم دیا کہ ”کوئی ایسی چیز بناؤ جس کے اوپر میں کھڑا ہو جاؤں“، عرض کیا اے اللہ کے نبی! کیسی چیز بنائیں؟ فرمایا: ”موسی علیہ السلام کا سا چھپر بناؤ“، جب وہ عریش بن گیا تو حسن کا کہنا ہے اللہ کی قسم وہ لکڑی رو پڑی۔ حسن رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا: سبحان الله ایسی قوم کے دلوں کو پایا جا سکتا ہے جنہوں نے اسے سنا۔ ابومحمد امام دارمی نے کہا یعنی اس آواز کو سنا۔
تخریج الحدیث: «مرسل إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 38]»
یہ روایت مرسل صحیح ہے، شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے [الصحيحة 616] میں ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [مسند ابي يعلى 2756]، [صحيح ابن حبان 6507] وغيرهما۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: مرسل إسناده صحيح
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر بنائے جانے سے پہلے ایک تنے کا سہارا لے کر خطبہ دیا کرتے تھے، پھر جب منبر بن گیا اور آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو وہ تنا رونے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چمٹا لیا تو وہ خاموش ہو گیا، فرمایا: ”میں اگر اسے چمٹاتا نہیں تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 39]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 249/1]، [مصنف ابن ابي شيبة 11795] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی روایت مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 40]»
دیکھئے: [ترمذي 3631]، [ابن ماجه 1415]، [مسند ابي يعلى 2756]، [ابن حبان 574] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ”تنا“ جس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تھے، رو پڑا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے، اپنا دست مبارک اس پر رکھا تو وہ خاموش ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف المسعودي وهو عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 41]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن اصل صحیح ہے، حوالہ گزر چکا ہے۔ نیز دیکھئے: [بخاري 917]، [مسلم 544] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف المسعودي وهو عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة والحديث متفق عليه
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنی پشت مسجد میں رکھے ایک تنے سے ٹکاتے تھے، ایک رومی آپ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میں آپ کے لئے ایسی چیز بنا دیتا ہوں جس پر آپ بیٹھے بھی ہوں تو ایسا لگے کہ کھڑے ہیں، چنانچہ اس نے منبر بنایا جس کی دو سیڑھیوں پر آپ کھڑے ہوتے اور تیسری پر بیٹھتے تھے، جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر تشریف فرما ہوئے تو وہ تنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم میں بیل کی طرح ڈکرانے لگا اور مسجد گونجنے لگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اسے چمٹا لیا تو وہ خاموش ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں اسے چمٹاتا نہیں تو یہ اللہ کے رسول کے فراق میں قیامت تک اسی طرح روتا رہتا“، پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا اور اس تنے کو دفن کر دیا گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 42]»
اس روایت کی سند صحیح ہے جس کی تخریج گزر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [مسند ابي يعلى 2756]، [صحيح ابن حبان 6507]، [موارد الظمآن 574] وضاحت:
(تشریح احادیث 31 سے 42) ❀ ان تمام روایات سے لکڑی اور تنے کا رونا، بات کرنا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا ثابت ہوتا ہے۔ ❀ نیز منبر کی مشروعیت اور اس پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا بھی ثابت ہوتا ہے۔ ❀ نبی رحمت کا پیڑ پودوں سے شفقت و محبت کرنا بھی ثابت ہوتا ہے۔ ❀ غیب کی خبر دینا کہ ”میں اسے چمٹا نہ لیتا تو قیامت تک روتا رہتا“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسولِ صادق ہونے کی دلیل ہے۔ ❀ قوت گویائی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، انسان، حیوان، نباتات و جمادات جس کو چاہے عطا فرما دے، اور جس سے چاہے اس کی یہ قوت سلب کر لے۔ «الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ» [فصلت: 21] ❀ مولانا وحیدالزماں صاحبں نے لکھا ہے: حسن بصری رحمہ اللہ جب اس حدیث کو بیان کرتے تو کہتے تھے: مسلمانو! ایک لکڑی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں، ملنے کے شوق میں روئی اور تم ایک لکڑی کے برابر بھی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ملنے کا شوق و محبت نہیں رکھتے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: شرح بخاری مولانا داؤد راز 83/5۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|