(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، اخبرنا محمد بن عمرو الليثي، عن ابي سلمة، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم: ياكل الهدية، ولا يقبل الصدقة، فاهدت له امراة من يهود خيبر شاة مصلية، فتناول منها، وتناول منها بشر بن البراء، ثم رفع النبي صلى الله عليه وسلم يده، ثم قال: "إن هذه تخبرني انها مسمومة"، فمات بشر بن البراء فارسل إليها النبي صلى الله عليه وسلم:"ما حملك على ما صنعت؟"، فقالت: إن كنت نبيا لم يضرك شيء، وإن كنت ملكا، ارحت الناس منك، فقال: في مرضه:"ما زلت من الاكلة التي اكلت بخيبر، فهذا اوان انقطاع ابهري".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو اللَّيْثِيُّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَأْكُلُ الْهَدِيَّةَ، وَلَا يَقْبَلُ الصَّدَقَةَ، فَأَهْدَتْ لَهُ امْرَأَةٌ مِنْ يَهُودِ خَيْبَرَ شَاةً مَصْلِيَّةً، فَتَنَاوَلَ مِنْهَا، وَتَنَاوَلَ مِنْهَا بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ، ثُمَّ رَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ، ثُمَّ قَالَ: "إِنَّ هَذِهِ تُخْبِرُنِي أَنَّهَا مَسْمُومَةٌ"، فَمَاتَ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَا حَمَلَكِ عَلَى مَا صَنَعْتِ؟"، فَقَالَتْ: إِنْ كُنْتَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّكَ شَيْءٌ، وَإِنْ كُنْتَ مَلِكًا، أَرَحْتُ النَّاسَ مِنْكَ، فَقَالَ: فِي مَرَضِهِ:"مَا زِلْتُ مِنْ الْأَكْلَةِ الَّتِي أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ، فَهَذَا أَوَانُ انْقِطَاعِ أَبْهَرِي".
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ (کی چیز) کھا لیتے تھے لیکن صدقہ قبول نہیں فرماتے تھے، خیبر کی ایک یہودی عورت نے بھنی ہوئی زہریلی بکری کا ہدیہ پہنچایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا بشر بن البراء رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کچھ تناول فرما لیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا اور فرمایا: ”اس بکری نے مجھے خبر دی ہے کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے۔“ چنانچہ اس کے اثر سے سیدنا بشر بن براء رضی اللہ عنہ تو فوت ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو بلایا اور دریافت کیا کہ ”تم نے ایسا کیوں کیا؟“ اس عورت نے جواب دیا: اگر آپ (سچے) نبی ہیں تو یہ آپ کو کوئی تکلیف نہیں دے گی اور اگر بادشاہ ہیں تو ہمیں آپ سے (چھٹکارہ) راحت مل جائے گی۔ آپ اپنے مرض الموت میں فرمایا کرتے تھے: ”خیبر میں میں نے جو گوشت کھایا تھا اس کا اثر اور الم اب محسوس کرتا ہوں اور اب میری شریان پھٹنے کا وقت آگیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن وهو مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 68]» یہ روایت مرسل ہے لیکن حسن ہے۔ اسے [أبوداؤد 4511]، [ابن سعد 112/1] اور بیہقی نے [دلائل النبوة 262/4] میں ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن وهو مرسل
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن نافع، اخبرنا شعيب بن ابي حمزة، عن الزهري، قال: كان جابر بن عبد الله رضي الله عنه يحدث، ان يهودية من اهل خيبر سمت شاة مصلية، ثم اهدتها إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فاخذ النبي صلى الله عليه وسلم منها الذراع فاكل منها، واكل الرهط من اصحابه معه، ثم قال لهم النبي صلى الله عليه وسلم: "ارفعوا ايديكم"، وارسل النبي صلى الله عليه وسلم إلى اليهودية فدعاها، فقال لها:"اسممت هذه الشاة؟"، فقالت: نعم، ومن اخبرك؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"اخبرتني هذه في يدي: للذراع"، قالت: نعم، قال:"فماذا اردت إلى ذلك؟"، قالت: قلت: إن كان نبيا لم يضره، وإن لم يكن نبيا، استرحنا منه،"فعفا عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولم يعاقبها"، وتوفي بعض اصحابه الذين اكلوا من الشاة،"واحتجم النبي صلى الله عليه وسلم على كاهله من اجل الذي اكل من الشاة"، حجمه ابو هند مولى بني بياضة، بالقرن والشفرة، وهو من بني ثمامة، وهم حي من الانصار.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: كَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يُحَدِّثُ، أَنَّ يَهُودِيَّةً مِنْ أَهْلِ خَيْبَرَ سَمَّتْ شَاةً مَصْلِيَّةً، ثُمَّ أَهْدَتْهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا الذِّرَاعَ فَأَكَلَ مِنْهَا، وَأَكَلَ الرَّهْطُ مِنْ أَصْحَابِهِ مَعَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ارْفَعُوا أَيْدِيَكُمْ"، وَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ فَدَعَاهَا، فَقَالَ لَهَا:"أَسَمَمْتِ هَذِهِ الشَّاةَ؟"، فَقَالَتْ: نَعَمْ، وَمَنْ أَخْبَرَكَ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَخْبَرَتْنِي هَذِهِ فِي يَدِيَ: لِلذِّرَاعِ"، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ:"فَمَاذَا أَرَدْتِ إِلَى ذَلِكَ؟"، قَالَتْ: قُلْتُ: إِنْ كَانَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ نَبِيًّا، اسْتَرَحْنَا مِنْهُ،"فَعَفَا عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يُعَاقِبْهَا"، وَتُوُفِّيَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ الَّذِينَ أَكَلُوا مِنْ الشَّاةِ،"وَاحْتَجَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى كَاهِلِهِ مِنْ أَجْلِ الَّذِي أَكَلَ مِنْ الشَّاةِ"، حَجَمَهُ أَبُو هِنْدٍ مَوْلَى بَنِي بَيَاضَةَ، بِالْقَرْنِ وَالشَّفْرَةِ، وَهُوَ مِنْ بَنِي ثُمَامَةَ، وَهُمْ حَيٌّ مِنْ الْأَنْصَارِ.
امام زہری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ خیبر کی ایک یہودی عورت نے بھنی ہوئی بکری زہر آلود کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کی، آپ نے اس کا دستانہ لے کر کچھ گوشت تناول فرمایا اور آپ کے ساتھ چند صحابہ نے بھی کھایا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”(بس) اپنے ہاتھ روک لو“، اور آپ نے اس عورت کو بلایا اور دریافت کیا: ”کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا؟“ اس نے جواب دیا ہاں، لیکن آپ کو کس نے بتایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ سے خود اس دستانے (دست کا گوشت) نے کہا جو میرے ہاتھ میں ہے“، اس نے کہا: بیشک میں نے زہر ملایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تیرا ارادہ کیا تھا؟“، وہ بولی میں نے سوچا اگر آپ نبی ہیں تو زہر آپ کو نقصان نہ دے گا اور اگر نبی نہیں ہیں تو ہم کو آپ کی طرف سے راحت مل جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا قصور معاف فرما دیا اور اس کو کچھ سزا نہ دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بعض وہ لوگ جنہوں نے وہ گوشت کھا لیا تھا، وفات پا گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی زہر کی وجہ سے اپنے پچھنے لگوائے۔ ابوہند نے گائے کی سینگ اور چھری سے پچھنے لگائے (ابوہند انصار کے ایک قبیلہ بنو بیاضہ کے آزاد کردہ غلام تھے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه الزهري لم يسمع من جابر فيما نعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 69]» یہ حدیث منقطع اور ضعیف ہے۔ [أبوداؤد 4510] اور [دلائل النبوة للبيهقي 262/4] میں اسی سند سے مذکور ہے۔ لیکن آنے والی حدیث اس کی شاہد ہو سکتی ہے جسے امام احمد و بخاری وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه الزهري لم يسمع من جابر فيما نعلم
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: لما فتحت خيبر، اهديت لرسول الله صلى الله عليه وسلم شاة فيها سم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اجمعوا لي من كان ها هنا من اليهود"، فجمعوا له، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إني سائلكم عن شيء فهل انتم صادقي عنه؟"، قالوا: نعم، يا ابا القاسم، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:"من ابوكم؟"، قالوا: ابونا فلان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"كذبتم، بل ابوكم فلان"، قالوا: صدقت وبررت، فقال لهم:"هل انتم صادقي عن شيء إن سالتكم عنه؟"، فقالوا: نعم، وإن كذبناك، عرفت كذبنا كما عرفته في آبائنا، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:"فمن اهل النار؟"، فقالوا: نكون فيها يسيرا ثم تخلفوننا فيها، قال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:"اخسئوا فيها، والله لا نخلفكم فيها ابدا"، ثم قال لهم:"هل انتم صادقي عن شيء إن سالتكم عنه؟"، قالوا: نعم، قال:"هل جعلتم في هذه الشاة سما؟"، قالوا: نعم، قال:"ما حملكم على ذلك؟"، قالوا: اردنا إن كنت كاذبا ان نستريح منك، وإن كنت نبيا لم يضرك.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ خَيْبَرَ، أُهْدِيَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةٌ فِيهَا سُمٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اجْمَعُوا لِي مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ الْيَهُودِ"، فَجُمِعُوا لَهُ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنِّي سَائِلُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَهَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْهُ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَنْ أَبُوكُمْ؟"، قَالُوا: أَبُونَا فُلَانٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"كَذَبْتُمْ، بَلْ أَبُوكُمْ فُلَانٌ"، قَالُوا: صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ، فَقَالَ لَهُمْ:"هَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنْهُ؟"، فَقَالُوا: نَعَمْ، وَإِنْ كَذَبْنَاكَ، عَرَفْتَ كَذِبَنَا كَمَا عَرَفْتَهُ فِي آبَائِنَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"فَمَنْ أَهْلُ النَّارِ؟"، فَقَالُوا: نَكُونُ فِيهَا يَسِيرًا ثُمَّ تَخْلِفُونَنا فِيهَا، قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"اخْسَئُوا فِيهَا، وَاللَّهِ لَا نَخْلِفُكُمْ فِيهَا أَبَدًا"، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ:"هَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنْهُ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:"هَلْ جَعَلْتُمْ فِي هَذِهِ الشَّاةِ سُمًّا؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:"مَا حَمَلَكُمْ عَلَى ذَلِكَ؟"، قَالُوا: أَرَدْنَا إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا أَنْ نَسْتَرِيحَ مِنْكَ، وَإِنْ كُنْتَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّكَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب خیبر فتح ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک زہر آلود بکری ہدیہ کی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں جتنے یہودی ہیں سب کو میرے پاس جمع کرو“، چنانچہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع کئے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم سے ایک بات پوچھنے والا ہوں، کیا تم مجھے صحیح صحیح جواب دو گے؟“ انہوں نے کہا ہاں اے ابوالقاسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہارا پردادا کون ہے؟“ انہوں نے جواب دیا کہ فلاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے جھوٹ کہا، تمہارا پردادا تو فلاں ہے“، اس پر وہ بولے آپ نے سچ اور درست فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”اگر میں تم سے کوئی اور سوال کروں تو کیا تم سچ سچ بتاؤ گے؟“ انہوں نے کہا ہاں اور اگر ہم جھوٹ بولیں بھی تو آپ ہمارا جھوٹ پکڑ لیں گے، جیسا کہ ابھی پردادا کے بارے میں آپ نے ہمارا جھوٹ پکڑ لیا، آپ نے ان سے پوچھا: ”دوزخ میں رہنے والے کون لوگ ہیں؟“ انہوں نے کہا: کچھ دن کے لئے تو ہم اس میں رہیں گے پھر آپ لوگ ہماری جگہ لے لیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو گے، واللہ ہم اس میں تمہاری جگہ کبھی نہ لیں گے“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”اگر میں تم سے ایک اور بات پوچھوں تو کیا تم مجھے صحیح بات بتا دو گے؟“ انہوں نے کہا: ہاں (ضرور) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا؟“ انہوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں اس کام پر کس (جذبے) نے ابھارا؟“ انہوں نے کہا: ہمارا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ جھوٹے ہوں گے تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ ”سچے“ نبی ہوں گے تو آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 70]» اس حدیث کی یہ سند ضعیف ہے لیکن ہو بہو یہی حدیث [مسند أحمد 451/2] و [صحيح بخاري 5777] میں دوسری سند سے موجود ہے اور اسے بغوی نے [شرح السنة 3807] اور بیہقی نے [دلائل النبوة 256/4] میں ذکر کیا ہے اس لئے حدیث صحیح ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 67 سے 70) اس حدیث سے یہود کی دروغ گوئی ثابت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ کہ مذبوحہ بھنی ہوئی بکری اور گوشت نے خبر دے دی کہ مسمومہ (زہریلی) ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عالم الغیب نہ ہونا ثابت ہوتا ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم ہوتا تو کیوں تناول فرماتے، اور جیسا کہ یہ پچھلی روایت میں مذکور ہے مرض الموت میں اس کا اثر محسوس فرماتے رہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ﴾[الاعراف: 188] ”اگر میں غیب جانتا تو بہت سی بھلائیاں جمع کر لیتا اور مجھ کو کوئی برائی نہ چھو سکتی۔“ ایک روایت میں ہے کہ زہر آلود کرنے والی یہودیہ عورت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بشر بن البراء رضی اللہ عنہ کے قتل کے بدلے قتل کرادیا تھا، دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو معاف کر دیا تھا، جیسا کہ امام زہری کی روایت میں ہے۔ اگرچہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے، لیکن اگر صحیح مان بھی لیا جائے تو ہو سکتا ہے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا، لیکن جب سیدنا بشر رضی اللہ عنہ اس کے زہر سے فوت (شہید) ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی عورت کو قصاصاً قتل کر دیا ہو۔ واللہ اعلم
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح ولكن الحديث صحيح