مقدمه مقدمہ 47. باب الرِّحْلَةِ في طَلَبِ الْعِلْمِ وَاحْتِمَالِ الْعَنَاءِ فِيهِ: علم کی طلب میں سفر کرنا اور اس میں مشقت برداشت کرنے کا بیان
ابوقلابہ نے کہا: میں نے مدینہ (طیبہ) میں تین دن قیام کیا اور تمام ضروریات سے فراغت حاصل کر لی، سوائے ایک آدمی کے (انتظار کے) جس کے آنے کی لوگ توقع رکھتے تھے، جو حدیث بیان کرتے تھے، میں مدینہ میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ وہ آ گئے اور میں نے ان سے مسائل دریافت کئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 581]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ایوب: ابن ابی تمیمہ، اور ابوقلابہ: عبداللہ بن زید ہیں۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 112]، [الرحلة فى طلب العلم للخطيب 53، 54]، [الجامع لأخلاق الراوي 1752] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبدالرحمٰن بن یزید بن جابر نے کہا: میں نے بسر بن عبیداللہ کو سنا، وہ فرماتے تھے: میں ایک حدیث سننے کے لئے شہر در شہر سفر کرتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف الوليد بن مسلم قد عنعن وهو مشهور بالتدليس، [مكتبه الشامله نمبر: 582]»
اس روایت میں ولید بن مسلم مدلس ہیں، اور روایت معنعن ہے، اس لئے یہ سند ضعیف ہے۔ اسے فسوی نے [المعرفة و التاريخ 386/3] میں اور انہی کے طریق سے خطیب نے [الرحلة فى طلب العلم 57] میں اور ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 576] میں ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف الوليد بن مسلم قد عنعن وهو مشهور بالتدليس
ابوالعالیہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے مروی روایات بصرہ میں سنتے، چین نہ آتا تو مدینے کا سفر کرتے اور ان (صحابہ) کے دہن مبارک سے ان روایات کو سنتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 583]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابوخلدہ کا نام خالد بن دینار ہے، اور ابوالعالیہ: رفیع بن مہران ہیں، اس روایت کو دیکھئے: [المعرفة 441/1]، [الرحلة فى طلب العلم 21]، [تاريخ أبى زرعة 924] و [التمهيد 56/1 ذكروه بسند صحيح] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبداللہ بن عبدالرحمٰن القشیری نے کہا: نبی داؤد علیہ السلام نے فرمایا: ”صاحب علم سے کہو کہ لوہے کا عصا اور لوہے کے جوتے بنا رکھے، اور علم طلب کرتا رہے یہاں تک کہ لاٹھی ٹوٹ جائے اور جوتے پھٹ جائیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده مظلم، [مكتبه الشامله نمبر: 584]»
اس روایت کی سند مظلم و نا قابل اعتبار ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم وفضله 577]، لیکن اس میں اس روایت کو موسیٰ علیہ السلام سے ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [الرحلة للخطيب ص: 86] وضاحت:
(تشریح احادیث 580 سے 584) اس میں علم کی طلب میں نکلنے اور سفر کرنے کی ترغیب ہے، لیکن یہ داؤد علیہ السلام کا فرمان نہیں ہے، عام مسلمان کی عام نصیحت ہوسکتی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده مظلم
سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں نے علم تلاش کیا تو انصار کے پاس سے زیادہ کہیں نہیں پایا، لہٰذا میں آدمی کے پاس جاتا اور اس کے بارے میں پوچھتا، مجھ سے کہا جاتا کہ وہ سوئے ہوئے ہیں، میں اپنی چادر کا تکیہ بناتا اور پھر لیٹ جاتا، جب وہ ظہر کے وقت باہر آتے تو فرماتے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے! تم کب سے یہاں ہو؟ میں عرض کرتا: کافی دیر سے بیٹھا ہوں، فرماتے: یہ تم اچھا نہیں کرتے، تم نے مجھے (اپنی آمد کے بارے میں) بتا کیوں نہیں دیا؟ میں عرض کرتا: میں نے چاہا کہ آپ اپنی ضروریات پوری کر کے باہر نکلیں۔
تخریج الحدیث: «في إسناده الحجاج وهو: ابن أرطاة وهو ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 585]»
اس روایت کی سند میں حجاج بن ارطاۃ ضعیف ہیں، ابن عبدالبر نے معلقاً [جامع بيان العلم 592] میں ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [الجامع لأخلاق الراوي 221] سند منقطع ہے لیکن یہ اثر صحیح ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 584) اس روایت سے اہلِ علم کا ادب و احترام اور طلبِ علم کے لئے نکلنا ثابت ہوا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده الحجاج وهو: ابن أرطاة وهو ضعيف
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ تر احادیث انصار کے اس محلے میں پائیں، قسم اللہ کی میں ان کے آدمی کے پاس جاتا تو کہا جاتا وہ سوئے ہوئے ہیں، اگر میں چاہتا تو میرے لئے انہیں جگا دیا جاتا، لیکن میں انہیں سوتا رہنے دیتا تا آنکہ وہ خود بخود باہر تشریف لائیں اور میں اس طرح ان سے اچھی طرح سے حدیث پڑھوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 586]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [العلم 133]، [الجامع لأخلاق الراوي 225]، [المعرفة 540/1]، [الفقيه والمتفقه 1001] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
ابوسلمہ (بن عبدالرحمٰن بن عوف) نے کہا: اگر میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی رفاقت اختیار کی ہوتی تو ان سے بہت سا علم حاصل کر لیتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 587]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المعرفة و التاريخ 559/1]، [الجامع لأخلاق الراوي 385]، [جامع بيان العلم 843]۔ نیز دیکھئے اثر رقم (426)۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 585 سے 587) «رفق به: إذ الان جانبه و حسن صنيعه» یہ اس لئے تھا کہ ابوسلمہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ہم عصر تھے اور درمیان میں کچھ اختلافات تھے، ابوسلمہ حسرت سے کہتے تھے: کاش میں نے ان سے علم حاصل کیا ہوتا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
امام زہری رحمہ اللہ نے کہا: میں عروہ بن الزبیر کے دروازے پر جاتا تو ان کی جلالت شان و توقیر کے سبب وہیں بیٹھ رہتا حالانکہ چاہتا تو (اندر) داخل بھی ہو جاتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 588]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الجامع لأخلاق الراوي 222]، [المعرفة 638/1]، و [الحلية 362/3] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو میں نے انصار کے ایک آدمی سے کہا: اے بھائی! آؤ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے استفسار کریں، آج وہ کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ انہوں نے جواب دیا: عباس کے بیٹے! کیسی عجیب بات کہتے ہو؟ کیا تم سوچتے ہو کہ لوگ اتنے سارے اصحاب رسول کی موجودگی میں تمہارے محتاج ہوں گے؟ پس انہوں نے ترک کیا اور میں نے سوال کرنے کی طرف توجہ کی، پس جب مجھے کوئی حدیث پہنچتی تو میں ان (انصاری بھائی) کے پاس جاتا، وہ قیلولہ کرتے ہوتے، ان کے دروازے پر چادر کا تکیہ لگا لیتا، ہوا سے میرے چہرے پر غبار چھا جاتا، وہ باہر آتے مجھے دیکھتے تو فرماتے: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے! کیوں آئے؟ کسی کو بھیج دیتے، میں خود حاضر ہو جاتا، میں عرض کرتا: نہیں، میں ہی زیادہ محتاج ہوں کہ آپ کے پاس آؤں، پھر میں ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھتا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: وہ (انصاری صحابی) لمبی مدت تک حیات رہے یہاں تک کہ مجھے دیکھا لوگ میرے پاس جمع ہوتے ہیں، فرمایا: یہ نوجوان مجھ سے زیادہ عقل مند تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 590]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المعرفة للفسوي 542/1]، [المستدرك 106/1]، [الجامع لأخلاق الراوي 215]۔ نیز دیکھئے: اثر رقم (585، 586)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبداللہ بن بریدہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص سیدنا فضالہ بن عبيد رضی اللہ عنہ کے پاس گئے جو مصر میں تھے، وہ جب ان کے پاس پہنچے تو سیدنا فضالہ رضی اللہ عنہ اپنی اونٹنی کو پانی پلا رہے تھے، کہا خوش آمدید، اس شخص نے کہا: آپ کی زیارت کے لئے نہیں آیا، ہاں میں نے اور آپ نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی تھی، امید ہے تمہیں یاد ہو گی؟ کہا: وہ کیا ہے؟ کہا: یہ اور یہ حدیث۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 591]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ اور جریری کا نام سعید بن ایاس ہے۔دیکھئے: [مسند الحميدي 388] وضاحت:
(تشریح احادیث 587 سے 590) ان تمام نصوص سے حدیث کے لئے سفر کرنا اور ایک حدیث کے لیے صحابۂ کرام کا مشقتیں برداشت کر نا ثابت ہوتا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|