مقدمه مقدمہ 43. باب مَنْ رَخَّصَ في كِتَابَةِ الْعِلْمِ: کتابت حدیث کی اجازت کا بیان
وہب بن منبہ نے اپنے بھائی سے روایت کیا کہ انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کوئی ایسا نہیں جس کے پاس آپ کی حدیث مجھ سے زیادہ ہو سوائے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے کیونکہ وہ لکھ لیا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 500]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح البخاري 113]، [صحيح ابن حبان 7152] وغيرہما۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبدالله بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ بھی سنتا حفظ کرنے کی غرض سے لکھ لیا کرتا تھا، پس قریش نے مجھے منع کیا اور کہا: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ بھی سنتے ہو لکھ لیتے ہو، حالانکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بھی بشر ہیں اور ناراضگی و خوشی میں کلام کرتے ہیں، چنانچہ میں نے لکھنا چھوڑ دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے اپنے دہن مبارک کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”لکھو! قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس سے حق و صداقت کے سوا کچھ نہیں نکلا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 501]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 163/2، 192، 174]، [أبوداؤد 3646، 3504]، [ترمذي 1234]، [نسائي 288/7، 295]، [دارقطني 74/3 -75]، [شرح معاني الآثار 64/4]، [المنتقى لابن الجارود 601]، [الحاكم 17/2]، وغيرہم. قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کی حدیث روایت کرنا چاہتا ہوں، لہٰذا آپ مناسب خیال فرمائیں تو میرا ارادہ ہے کہ دل کے ساتھ اپنے ہاتھ کی کتابت سے بھی مدد لوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے میری حدیث کو اچھی طرح یاد کر لو پھر اپنے ہاتھ کی کتابت سے دل کے ساتھ مدد بھی لے لو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده فيه علتان: ضعف عبد الله بن صالح كاتب الليث وجهالة المخبر عن عبد الله بن عمرو، [مكتبه الشامله نمبر: 502]»
اس حدیث کی سند ضعیف ہے، کیونکہ عبداللہ بن صالح ضعیف ہیں، اور ابن عمرو سے روایت کرنے والے مجہول ہیں۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 9/2/4]، [تقييد العلم ص: 81 و اسناده مظلم] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده فيه علتان: ضعف عبد الله بن صالح كاتب الليث وجهالة المخبر عن عبد الله بن عمرو
ابوقبیل نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بیٹھے لکھ رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: سب سے پہلے کون سا شہر فتح ہو گا، قسطنطنیہ یا رومیہ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”نہیں، پہلے ہرقل کا شہر فتح کیا جائے گا۔“ (یعنی رومہ)۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 503]»
اس روایت کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 329/5]، [المعجم الكبير 61] وضاحت:
(تشریح احادیث 499 سے 503) اس سے کتابتِ حدیث ثابت ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی بھی صحیح ثابت ہوئی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
عبداللہ بن دینار نے کہا: عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ نے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم کو لکھا کہ آپ کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور عمرہ سے (مروی) جو ثابت شدہ حدیث موجود ہو، وہ ہمارے پاس لکھ بھیجئے کیونکہ میں علم کے مٹ جانے اور چلے جانے سے ڈرتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 504]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابوضمرة کا نام انس بن عیاض ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 105] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبداللہ بن دینار نے فرمایا کہ عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ نے اہل مدینہ کو لکھا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم تلاش کر کے اس کو لکھ لیں، مجھے علم کے مٹ جانے اور اہل علم کے ختم ہو جانے یا چلے جانے کا خوف ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 505]»
اس کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 346]، [تقييد العلم ص: 106]، [مفتاح الجنة ص: 32] و [مجمع الزوائد محقق 418/2] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوملیح (اسامہ بن عمیر) نے کہا: ہم کو لوگ کتابت کرنے کا عیب لگاتے ہیں، حالانکہ الله تعالیٰ کا فرمان ہے: «﴿ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ ﴾» [طه: 52/20] یعنی ”اس کا علم میرے رب کے پاس مکتوب ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 506]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6478]، [تقييد العلم ص: 110] و [جامع بيان العلم 407] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سواده بن حبان نے بیان کیا کہ میں نے ابوایاس معاویہ بن قرہ کو سنا، فرماتے تھے: جو اپنے علم کو قلم بند نہ کرے، اس کا علم علم نہیں رہے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 507]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 109]، [جامع بيان العلم وفضله 417] و [المحدث الفاصل 341] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبداللہ بن المثنی نے کہا: مجھ سے ثمامہ بن انس نے بیان کیا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں سے فرماتے تھے: بیٹو! اس علم کو قید کر لو، یعنی لکھ لیا کرو۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل عبد الله بن المثنى، [مكتبه الشامله نمبر: 508]»
اس قول کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم 96-97]، [العلم 120]، [المعجم الطبراني الكبير 700]، [المستدرك 106/1]، [جامع بيان العلم 410] میں موقوفاً اور [المحدث الفاصل 327]، [الناسخ والمنسوخ 599]، [جامع بيان العلم 395]، [تاريخ بغداد 56/10] میں یہ روایت موصولاً موجود ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل عبد الله بن المثنى
مسلم بن قیس العلوی نے کہا: میں نے ابان (ابن أبي عیاش) کو سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے پاس (بورڈ) تختی پر لکھتے دیکھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 509]»
اس روایت کی سند جید ہے، گرچہ مسلم العلوی اور ابان کے بارے میں کلام کیا گیا ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 109] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
حسن بن جابر سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے علم کو لکھنے کی بابت سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا: اس میں کوئی حرج نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 510]»
اس روایت کی یہ اسناد جید ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 98]، [جامع بيان العلم 411] و [طبقات ابن سعد 132/2/7] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
بشیر بن نہیک نے کہا: میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے جو کچھ سنتا لکھ لیا کرتا تھا، جب میں ان سے رخصت ہونے لگا تو میں اپنا لکھا ہوا ان کے پاس لے گیا اور انہیں پڑھ کر سنایا اور عرض کیا کہ یہ ہی میں نے آپ سے سنا تھا، فرمایا: ٹھیک ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 511]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [العلم لأبي خيثمه 137]، [مصنف ابن أبى شيبه 6483]، [تقييد العلم ص: 101]، [جامع بيان العلم 403]، [المحدث الفاصل 702] اس میں ابومجلز کا نام لاحق بن حمید ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 503 سے 511) اس میں کتابتِ حدیث پر رضامندی کا اظہار ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سعید بن جبیر نے کہا: میں سیدنا عبدالله بن عمر اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے رات میں حدیث کا سماع کرتا اور کجاوے کے ہتھے پر لکھ لیا کرتا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 512]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 102-103] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
سیدنا عبدالله بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا: مجھے زندگی میں صادقہ اور وہط کے سوا کوئی چیز عزیز و مرغوب نہیں۔ «صادقه» احادیث کا مجموعہ اور وہ صحیفہ ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لکھا اور «وهط» طائف کی وہ زمین تھی جس کو (والد محترم) عمرو بن العاص نے صدقہ کر دیا جس پر وہ کام کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل ليث بن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 513]»
لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے، دیکھئے: [تقييد العلم ص: 84]، [جامع بيان العلم 394] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل ليث بن أبي سليم
عبدالملک بن عبداللہ بن ابی سفیان نے اپنے چچا عمرو بن ابی سفیان سے روایت کیا کہ انہوں نے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرماتے تھے: علم کو کتابت کے ذریعہ قید کر لو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن جريج، [مكتبه الشامله نمبر: 514]»
اس اثر کی سند میں عبدالملک متکلم فیہ ہیں اور ابن جریج نے عنعنہ سے روایت کیا ہے، اس لئے یہ روایت ضعیف ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6478]، [جامع بيان العلم 396]، [المحدث الفاصل 358]، [تقييد العلم ص: 88] و [المستدرك 106/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن جريج
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس علم کو کتابت کے ذریعہ قید کر لو۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع عبد الملك بن عبد الله بن أبي سفيان لم يدرك عبد الله بن عمر. ولكن الأثر صحيح لغيره، [مكتبه الشامله نمبر: 515]»
اس روایت کے رجال ثقات ہیں، لیکن اس میں انقطاع ہے، کیونکہ عبدالملک بن عبداللہ نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو پایا ہی نہیں۔ حوالہ دیکھئے: [المعجم الأوسط 852] و [المستدرك 106/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع عبد الملك بن عبد الله بن أبي سفيان لم يدرك عبد الله بن عمر. ولكن الأثر صحيح لغيره
عثمان بن حکیم نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن جبیر کو کہتے سنا کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ہمراہ مکہ کے راستے میں چل رہا تھا اور وہ جو بھی حدیث بیان کرتے تو میں کجاوے کے ہتھے پر اسے لکھ لیتا تاکہ صبح کو (کاپی میں) لکھ لوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 516]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6485]، [جامع بيان العلم 405]، [تقييد العلم ص: 102-103] اس کی سند میں ابوالنعمان: محمد بن الفضل ہیں اور عبدالواحد: ابن زیاد ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سعید بن جبیر نے کہا میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس صحیفہ میں لکھتا تھا اور کچھ نہیں تو جوتے پر بھی لکھ لیتا۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن ابن مندة قال: " جعفر بن أبي المغيرة ليس بالقوي في سعيد بن جبير "، [مكتبه الشامله نمبر: 517]»
اس روایت کے رجال ثقات ہیں، سوائے جعفر بن ابی مغیرہ کے، جو سعید بن جبیر سے روایت میں قوی نہیں۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 102] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن ابن مندة قال: " جعفر بن أبي المغيرة ليس بالقوي في سعيد بن جبير "
سعید بن جبیر نے کہا: میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھتا تھا اور صحیفہ میں لکھتا یہاں تک کہ وہ بھر جاتا تو میں اپنے جوتے الٹتا اور ان کے تلے میں لکھ لیتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف علي بن مندل العنزي، [مكتبه الشامله نمبر: 518]»
اس روایت کی سند میں مندل بن علی ضعیف ہیں۔ حوالہ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 102] و [المحدث الفاصل 347] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف علي بن مندل العنزي
عبید (بن مہران) مُکتِب نے کہا: میں نے لوگوں کو دیکھا وہ مجاہد سے تفسیر لکھتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 519]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص:105]، فضیل: ابن عیاض اور عبید: ابن مہران ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبداللہ بن حنش نے کہا: میں نے لوگوں کو سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما کے پاس سرکنڈوں کے کنارے سے اپنے ہاتھ پر لکھتے دیکھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 520]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [العلم 147]، [مصنف ابن أبى شيبه 6489]، [جامع بيان العلم 408] و [تقييد العلم ص: 105] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ہارون بن عنترہ سے مروی ہے ان کے والد نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ کو ایک حدیث بیان کی، میں نے عرض کیا: میں اس کو آپ سے لکھ لوں؟ انہوں نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ کو اس کی اجازت دے دی اور روکا نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 521]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6503]، [جامع بيان العلم 409] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
رجاء بن حیوہ نے بیان کرتے ہوئے فرمایا: ہشام بن عبدالملک نے اپنے گورنر کو لکھا کہ وہ مجھ سے ایک حدیث کے بارے میں دریافت کرے، رجاء نے کہا: اگر وہ میرے پاس لکھی نہ ہوتی تو میں اس کو بھول گیا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 522]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تاريخ أبى زرعه 793]، [تقييد العلم ص: 108] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ہشام بن غاز نے کہا کہ وہ عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے سوال کرتے تھے اور وہ جو جواب دیتے اسے ان کے سامنے لکھ لیتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 523]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن کسی اور کتاب میں نہ مل سکی۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 511 سے 523) اس سے بھی کتابت اور لکھنے کی اجازت اور رضامندی ظاہر ہوتی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سلیمان بن موسیٰ نے نافع مولى سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، وہ اپنے علم کو املاء کراتے تھے اور وہ (یعنی سلیمان) ان کے سامنے لکھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 524]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تاريخ أبى زرعه 792] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
مبارک بن سعید نے بیان کیا: سفیان رات میں دیوار پر حدیث لکھ لیتے تھے اور جب صبح ہوتی تو اس کو نسخ کر لیتے اور جو دیوار پر لکھا تھا اسے کھرچ دیتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 525]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دوسری جگہ یہ روایت نہیں مل سکی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عون بن عبداللہ نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ سے کہا: فلاں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حدیث بیان کی، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے انہیں پہچان لیا، میں نے عرض کیا: انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”یقیناً حیا، پاکبازی اور دل کی عاجزی نہیں بلکہ زبان کی عاجزی اور فقہ و تدبر ایمان میں سے ہیں، اور یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو آخرت کے اعمال میں اضافہ کرتی ہیں، اور دنیا کے افعال میں کمی کرتی ہیں، اور آخرت میں جو اضافہ کرتی ہیں وہ بہت زیادہ ہے۔ اور یقیناً بےہودگی، بدسلوکی اور بخیلی نفاق میں سے ہیں، اور یہ سب ان چیزوں میں سے ہیں جو دنیا میں اضافہ کرتی ہیں، لیکن آخرت میں کمی کرتی ہیں، اور جو آخرت میں کمی ہوتی ہے وہ بہت زیادہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 526]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ اور ابواسامہ کا نام حماد بن أسامۃ ہے۔ دیکھئے: [المعجم الكبير 29/19، 63]، [التاريخ الكبير للبخاري 88/2، 181/7]، [المعرفة والتاريخ للفسوي 311/1]، [سنن البيهقي 194/10]، [حلية الأولياء 125/3]، [مكارم الأخلاق لابن أبى الدنيا 87] و [المصنف 17423 بسند ضعيف] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوقلابہ نے کہا: عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نماز ظہر کے لئے نکل کر آئے اور ان کے ساتھ ایک کاغذ تھا، پھر جب نماز عصر کے لئے تشریف لائے تو اس وقت بھی وہ کاغذ ان کے ساتھ تھا، لہٰذا میں نے عرض کیا: اے امیر المؤمنین! یہ کیسی کتاب ہے؟ فرمایا: یہ وہ حدیث ہے جو عون بن عبداللہ نے مجھ سے بیان کی، مجھے پسند آئی تو میں نے لکھ لی، دیکھا تو وہی حدیث لکھی تھی۔ یعنی مذکور بالا حدیث۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 527]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ لیکن کسی دوسری کتاب میں نہ مل سکی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
شرحبیل بن سعد نے کہا کہ حسن نے اپنے بیٹے اور بھتیجوں کو بلایا اور فرمایا: میرے اور میرے بھائی کے بیٹو! تم خاندان کے چھوٹے ہو اور قریب ہی بڑوں میں شمار ہو گے، لہٰذا علم حاصل کرو، اور تم میں سے جو روایت و حفظ کی استطاعت نہ پائے وہ اس کو لکھے اور اپنے گھر میں رکھ لے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف شرحبيل بن سعد، [مكتبه الشامله نمبر: 528]»
اس روایت کی سند شرحبیل بن سعد کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص:91]، [جامع بيان العلم 448] وضاحت:
(تشریح احادیث 523 سے 528) ان تمام روایات سے احادیث یا علمی باتیں لکھ لینے کی ترغیب و اجازت اور اہمیت ثابت ہوتی ہے، اور صحابہ کرام و تابعین سے کتابتِ حدیث کی کراہت یا ناپسندیدگی اس وقت کے لئے تھی جب قرآن کریم اور احادیث شریفہ کے خلط ملط ہونے کا خدشہ تھا، خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابتِ حدیث سے منع فرمایا، لیکن بعد میں اجازت دے دی تھی، جیسا کہ مختلف احادیث میں گزر چکا ہے، لہٰذا آج کے زمانے میں جب کہ قرآن و حدیث مدون ہیں حدیث لکھنے یا دروس اور نوٹس بنانے یا لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس باب کی احادیث، آثار و اقوالِ صحابہ و تابعین سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف شرحبيل بن سعد
|