مقدمه مقدمہ 26. باب في ذَهَابِ الْعِلْمِ: علم کے اٹھ جانے (ختم ہو جانے) کا بیان
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اس کو لوگوں سے چھین لے، بلکہ علم کا اٹھانا علماء کا اٹھا لیا جانا ہے، پس جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے، ان سے سوالات کئے جائیں گے اور وہ بنا علم کے فتویٰ دیں گے، اس لئے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسرے لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 245]»
اس حدیث کی سند صحیح اور یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 100]، [مسلم 2673]، [صحيح ابن حبان 4571]، [مسند الحميدي 593]، [مصنف ابن أبى شيبه 19436] وغيرهم۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 244) اس حدیث میں علم اور علماء کے اٹھ جانے کی پیشین گوئی ہے جو پوری ہوتی جارہی ہے، اس لئے جاہلوں کو سردار بنانے اور بے علم علماء کے فتوؤں سے ہوشیار رہنے اور بچنے کی ضرورت ہے۔ اس حدیث کی شرح میں مولانا راز صاحب تحریر فرماتے ہیں: پختہ عالم جو دین کی پوری سمجھ رکھتے ہوں اور احکامِ اسلام کے دقائق و رموز کو بھی جانتے ہوں، ایسے علماء ختم ہو جائیں گے، اور سطحی مدعیانِ علم باقی رہ جائیں گے، جو نا سمجھی کی وجہ سے محض تقلیدِ جامد کی تاریکی میں گرفتار ہوں گے اور اپنے فتوؤں سے خود گمراہ ہوں گے اور دیگر لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے، یہ رائے اور قیاس کے دلدادہ ہوں گے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم حاصل کر لو اس کے ختم ہونے سے پہلے“، صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! علم کیسے ختم ہو جائے گا حالانکہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے؟ راوی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں آ گئے، پھر فرمایا: ”تمہاری مائیں تم کو گم کر دیں، کیا بنی اسرائیل میں توریت و انجیل نہیں تھیں جو انہیں کوئی فائدہ نہ دے سکیں؟ علم کا اٹھ جانا یہ ہے کہ اہل علم اٹھ جائیں، بیشک علم کا اٹھ جانا اہل علم کا اٹھ جانا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف حجاج بن أرطاة ولكنه حديث حسن بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 246]»
اس روایت کی سند میں حجاج بن ارطاة ضعیف ہیں، لیکن اس حدیث کے شواہد صحیحہ موجود ہیں۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 990]، [جامع بيان العلم 136]، [تاريخ بغداد 212/2] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف حجاج بن أرطاة ولكنه حديث حسن بشواهده
ہلال بن خباب نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے کہا: اے ابوعبداللہ! لوگوں کے ہلاک ہونے کی علامت کیا ہے؟ کہا: جب ان کے علماء ہلاک ہو جائیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 247]»
اسی روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 40/15]، [جامع بيان العلم 1023]، [البدع 213]، [شعب الايمان 1662]، [حلية الأولياء 276/4] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا: جب تک پہلے لوگ دوسرے لوگوں کو سکھاتے اور دوسرے ان سے تعلیم حاصل کرتے رہیں گے خیر باقی رہے گا، جب بنا تعلیم دیئے اور دوسرے کے سیکھے بنا پہلا ہلاک ہوا تو لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف مسعود بن سعد متأخر السماع من عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 248]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، اور امام دارمی کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا، نیز دوسری سند آگے دیکھئے: رقم (255)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف مسعود بن سعد متأخر السماع من عطاء
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کیا تم جانتے ہو «ذهاب العلم» (یعنی علم کا اٹھ جانا) سے مراد کیا ہے؟ ہم نے کہا نہیں، فرمایا: اس سے مراد علماء کا اٹھ جانا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 249]»
اس کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 1007]، [مسند أبى يعلی 7074]، [العلم لأبي خيثمه 53] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو علم کیسے کم ہو گا؟ راوی نے کہا: جیسے کپڑا سکڑتا ہے اور درہم کھوٹا ہو جاتا ہے۔ فرمایا: نہیں، یہ بھی ایسا ہی ہے لیکن علم کا قبض ہونا علماء کا قبض ہونا ہے۔
تخریج الحدیث: «في إسناده محمد بن أسعد منكر الحديث، [مكتبه الشامله نمبر: 250]»
اس روایت کی یہ سند ضعیف ہے اور اس کو صرف امام دارمی نے روایت کیا ہے لیکن معنی صحیح ہے۔ «(كما مر)» قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده محمد بن أسعد منكر الحديث
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا بات ہے میں دیکھتا ہوں تمہارے علماء اٹھتے جا رہے ہیں اور جاہل علم بھی حاصل نہیں کرتے؟ علم حاصل کرو اس سے پہلے کہ وہ اٹھا لیا جائے، علم کا اٹھنا علماء کا اٹھ جانا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه سالم لم يدرك أبا الدرداء فيما نعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 251]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [أحمد فى الزهد ص:144]، [جامع بيان العلم 1036، 1044]، [الحلية 212/1، 221] اس طرح مجموع طرق سے یہ صحیح ہو جاتی ہے۔ واللہ اعلم۔ نیز دیکھئے: [مجمع الزوائد 1005] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه سالم لم يدرك أبا الدرداء فيما نعلم
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: عالم اور متعلم، جو ان کے علاوہ ہیں ان میں کوئی خیر نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه سليمان بن موسى لم يدرك أبا الدرداء، [مكتبه الشامله نمبر: 252]»
اس اثر کی سند ضعیف ہے، اور [الزهد لأحمد ص: 136]، [مصنف ابن أبى شبية 6172]، [حلية الأولياء 212/1]، [جامع بيان العلم 138، 140]، [إبانة 210] میں یہ اثر موجود ہے اور «الدُّنْيَا مَلْعُوْنَةٌ مَلْعُوْنٌ مَا فِيْهَا إِلَّا ذِكْرَ اللهِ وَمَا وَالَاهْ وَعَالِمٌ وَمُتَعَلِّمٌ» سے اس قول کی تائید ہوتی ہے۔ یہ حدیث آگے (330) پر آ رہی ہے۔ اس لئے معنی صحیح ہے۔ دیکھئے: [شرح السنة 4028] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه سليمان بن موسى لم يدرك أبا الدرداء
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: بھلائی کی تعلیم دینے والا اور (بھلائی) سیکھنے والا اجر میں دونوں برابر ہیں، اور ان دونوں کے علاوہ کسی میں خیر نہیں۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 253]»
اس روایت میں انقطاع ہے، لیکن معنی صحیح ہے جیسا کہ گزر چکا ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبة 6173]، [جامع بيان العلم 141] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عالم بنو یا متعلم یا پھر مستمع رہو اور چوتھے آدمی نہ بنو کہ ہلاک ہو جاؤ۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف الحسن هو البصري وقد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 254]»
اس اثر کی سند بھی ضعیف ہے، لیکن اس کے شواہد موجود ہیں۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبة 6171]، [المعرفة والتاريخ 399/3]، [العلم 116]، [الإحكام 1045/6] وضاحت:
(تشریح احادیث 245 سے 254) اس میں عالم، متعلم اور مستمع کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور چوتھا آدمی نہ بننے کی تلقین ہے کیونکہ اس سے ہلاکت کا خطرہ ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف الحسن هو البصري وقد عنعن
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (پرانے) لوگ جب تک دوسروں کو تعلیم دے کر باقی رہیں گے خیر باقی رہے گا، اور جب (پرانے) لوگ دوسروں کے علم حاصل کرنے سے پہلے چل بسے تو لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 255]»
اس اثر کی تخرج رقم (248) پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 254) اس میں علم حاصل کرنے کی ترغیب ہے اور علماء کے اٹھ جانے سے ہلاکت میں پڑ جانے کی تر ہیب۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
احنف بن قیس نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرو اس سے پہلے کہ تم سردار ہو جاؤ۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 256]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور یہ روایت [مصنف ابن أبى شيبه 6167]، [العلم لأبي خيثمه 9]، [الزهد لوكيع 102]، [الفقيه 78/2]، [الإلماع للقاضي ص: 244]، [شعب الإيمان 1669] و [جامع بيان العلم 508، 509] میں موجود ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 255) یعنی کم عمری میں علم حاصل کرو اس سے پہلے کہ بڑے ہو جاؤ اور سردار بنا دیئے جاؤ، پھر تمہیں علم کے حصول میں شرم آئے اور تم جاہل کے جاہل بنے رہو۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ عمارت بنانے میں فخر کرنے لگے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے عرب کے لوگو! زمین سے بچو، زمین سے بچو، اسلام بِنا جماعت کے قائم نہیں رہ سکتا، اور جماعت بغیر حکومت کے، اور حکومت و امارت بغیر اطاعت کے قائم نہیں رہ سکتی، پس جس کو اس کی قوم نے (علم و فقہ) کی بنا پر سردار بنایا وہ اس کے اور قوم کے لئے زندگی ہے، اور جس کو اس کی قوم نے فقہ نہ ہونے پر سردار بنایا یہ اس کی اور اس قوم کی ہلاکت ہے۔
تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: الأولى جهالة صفوان بن رستم والثانية الانقطاع. وعبد الرحمن بن ميسرة لم يدرك تميما الداري، [مكتبه الشامله نمبر: 257]»
اس روایت کی سند میں دو علتیں ہیں جن کے سبب ضعیف ہے، اور ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 326] میں اس کو ذکر کیا ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 256) ان تمام احادیث و آثار سے علمائے کرام کی قدر و قیمت ثابت ہوتی ہے، علماء نہ رہیں گے تو علم بھی نہ رہے گا، نیز ان میں علم حاصل کرنے کی ترغیب بھی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده علتان: الأولى جهالة صفوان بن رستم والثانية الانقطاع. وعبد الرحمن بن ميسرة لم يدرك تميما الداري
|