Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
0
3. مُسْنَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 111
(حديث موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْكِنْدِيِّ : أَنَّهُ رَكِبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَسْأَلُهُ عَنْ ثَلَاثِ خِلَالٍ، قَالَ: فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَسَأَلَهُ عُمَرُ: مَا أَقْدَمَكَ؟ قَالَ: لِأَسْأَلَكَ عَنْ ثَلَاثِ خِلَالٍ، قَالَ: وَمَا هُنَّ؟ قَالَ:" رُبَّمَا كُنْتُ أَنَا وَالْمَرْأَةُ فِي بِنَاءٍ ضَيِّقٍ، فَتَحْضُرُ الصَّلَاةُ، فَإِنْ صَلَّيْتُ أَنَا وَهِيَ، كَانَتْ بِحِذَائِي، وَإِنْ صَلَّتْ خَلْفِي، خَرَجَتْ مِنَ الْبِنَاءِ، فَقَالَ عُمَرُ : تَسْتُرُ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بِثَوْبٍ، ثُمَّ تُصَلِّي بِحِذَائِكَ إِنْ شِئْتَ. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وَعَنْ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَ:" نَهَانِي عَنْهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ". (حديث موقوف) (حديث موقوف) قَالَ: وَعَنِ الْقَصَصِ، فَإِنَّهُمْ أَرَادُونِي عَلَى الْقَصَصِ، فَقَالَ: مَا شِئْتَ، كَأَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يَمْنَعَهُ، قَالَ:" إِنَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَنْتَهِيَ إِلَى قَوْلِكَ، قَالَ: أَخْشَى عَلَيْكَ أَنْ تَقُصَّ فَتَرْتَفِعَ عَلَيْهِمْ فِي نَفْسِكَ، ثُمَّ تَقُصَّ فَتَرْتَفِعَ، حَتَّى يُخَيَّلَ إِلَيْكَ أَنَّكَ فَوْقَهُمْ بِمَنْزِلَةِ الثُّرَيَّا، فَيَضَعَكَ اللَّهُ تَحْتَ أَقْدَامِهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقَدْرِ ذَلِكَ".
حارث بن معاویہ کندی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں تین سوال پوچھنے کے لئے سواری پر سفر کر کے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ ہوا، جب میں مدینہ منورہ پہنچا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آنے کی وجہ پوچھی، میں نے عرض کیا کہ تین باتوں کے متعلق پوچھنے کے لئے حاضر ہوا ہوں، فرمایا: وہ تین باتیں کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ بعض اوقات میں اور میری بیوی ایک تنگ کمرے میں ہوتے ہیں، نماز کا وقت آ جاتا ہے، اگر ہم دونوں وہاں نماز پڑھتے ہوں تو وہ میرے بالکل ساتھ ہوتی ہے اور اگر وہ میرے پیچھے کھڑی ہوتی ہے تو کمرے سے باہر چلی جاتی ہے اب کیا کیا جائے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اپنے اور اپنی بیوی کے درمیان ایک کپڑا لٹکا لیا کرو، پھر اگر تم چاہو تو وہ تمہارے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتی ہے۔ پھر میں نے عصر کے بعد دو نفل پڑھنے کے حوالے سے پوچھا: تو فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، پھر میں نے ان سے وعظ گوئی کے حوالے سے پوچھا کہ لوگ مجھ سے وعظ کہنے کا مطالبہ کرتے ہیں؟ فرمایا کہ آپ کی مرضی ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے جواب سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ براہ راست منع کرنے کو اچھا نہیں سمجھ رہے، میں نے عرض کیا کہ میں آپ کی بات کو حرفِ آخر سمجھوں گا، فرمایا: مجھے یہ اندیشہ ہے کہ اگر تم نے قصہ گوئی یا وعظ شروع کر دیا تو تم اپنے آپ کو ان کے مقابلے میں اونچا سمجھنے لگو گے، حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم وعظ کہتے وقت اپنے آپ کو ثریا پر پہنچا ہوا سمجھنے لگو گے، جس کے نتیجے میں قیامت کے دن اللہ تمہیں اسی قدر ان کے قدموں کے نیچے ڈال دے گا۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن