(حديث مرفوع) قرات على يحيى بن سعيد ، عن عثمان بن غياث ، قال: حدثني عبد الله بن بريدة ، عن يحيى بن يعمر ، وحميد بن عبد الرحمن الحميري ، قالا: لقينا عبد الله بن عمر ، فذكرنا القدر، وما يقولون فيه، فقال: إذا رجعتم إليهم، فقولوا: إن ابن عمر منكم بريء، وانتم منه برآء ثلاث مرار، ثم قال: اخبرني عمر بن الخطاب انهم بينما هم جلوس، او قعود عند النبي صلى الله عليه وسلم، جاءه رجل يمشي، حسن الوجه، حسن الشعر، عليه ثياب بياض، فنظر القوم بعضهم إلى بعض: ما نعرف هذا، وما هذا بصاحب سفر، ثم قال: يا رسول الله، آتيك؟ قال: نعم، فجاء فوضع ركبتيه عند ركبتيه، ويديه على فخذيه، فقال: ما الإسلام؟ قال:" شهادة ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان، وتحج البيت"، قال: فما الإيمان؟ قال:" ان تؤمن بالله وملائكته، والجنة والنار، والبعث بعد الموت، والقدر كله"، قال: فما الإحسان؟ قال:" ان تعمل لله كانك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك"، قال: فمتى الساعة؟ قال:" ما المسئول عنها باعلم من السائل"، قال: فما اشراطها؟ قال:" إذا العراة الحفاة العالة رعاء الشاء تطاولوا في البنيان، وولدت الإماء رباتهن، قال: ثم قال: علي الرجل"، فطلبوه، فلم يروا شيئا، فمكث يومين او ثلاثة، ثم قال:" يا ابن الخطاب، اتدري من السائل عن كذا وكذا؟" قال: الله ورسوله اعلم، قال:" ذاك جبريل، جاءكم يعلمكم دينكم". (حديث موقوف) (حديث قدسي) قال: وساله رجل من جهينة، او مزينة، فقال: يا رسول الله، فيما نعمل، افي شيء قد خلا او مضى، او في شيء يستانف الآن؟ قال:" في شيء قد خلا او مضى"، فقال رجل، او بعض القوم: يا رسول الله، فيما نعمل؟ قال:" اهل الجنة ييسرون لعمل اهل الجنة، واهل النار ييسرون لعمل اهل النار"، قال يحيى، قال: هو هكذا، يعني: كما قرات علي.(حديث مرفوع) قَرَأْتُ عَلَى يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ ، قَالَا: لَقِينَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، فَذَكَرْنَا الْقَدَرَ، وَمَا يَقُولُونَ فِيهِ، فَقَالَ: إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ، فَقُولُوا: إِنَّ ابْنَ عُمَرَ مِنْكُمْ بَرِيءٌ، وَأَنْتُمْ مِنْهُ بُرَآءُ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنَّهُمْ بَيْنَما هُمْ جُلُوسٌ، أَوْ قُعُودٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَهُ رَجُلٌ يَمْشِي، حَسَنُ الْوَجْهِ، حَسَنُ الشَّعْرِ، عَلَيْهِ ثِيَابُ بَيَاضٍ، فَنَظَرَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ: مَا نَعْرِفُ هَذَا، وَمَا هَذَا بِصَاحِبِ سَفَرٍ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، آتِيكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَجَاءَ فَوَضَعَ رُكْبَتَيْهِ عِنْدَ رُكْبَتَيْهِ، وَيَدَيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، فَقَالَ: مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ:" شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ الْبَيْتَ"، قَالَ: فَمَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ:" أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ، وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْقَدَرِ كُلِّهِ"، قَالَ: فَمَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ:" أَنْ تَعْمَلَ لِلَّهِ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، قَالَ: فَمَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ:" مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ"، قَالَ: فَمَا أَشْرَاطُهَا؟ قَالَ:" إِذَا الْعُرَاةُ الْحُفَاةُ الْعَالَةُ رِعَاءُ الشَّاءِ تَطَاوَلُوا فِي الْبُنْيَانِ، وَوَلَدَتْ الْإِمَاءُ رَبَّاتِهِنَّ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: عَلَيَّ الرَّجُلَ"، فَطَلَبُوهُ، فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا، فَمَكَثَ يَوْمَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، ثُمَّ قَالَ:" يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، أَتَدْرِي مَنْ السَّائِلُ عَنْ كَذَا وَكَذَا؟" قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" ذَاكَ جِبْرِيلُ، جَاءَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ". (حديث موقوف) (حديث قدسي) قَالَ: وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ جُهَيْنَةَ، أَوْ مُزَيْنَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِيمَا نَعْمَلُ، أَفِي شَيْءٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضَى، أَوْ فِي شَيْءٍ يُسْتَأْنَفُ الْآنَ؟ قَالَ:" فِي شَيْءٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضَى"، فَقَالَ رَجُلٌ، أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِيمَا نَعْمَلُ؟ قَالَ:" أَهْلُ الْجَنَّةِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَهْلُ النَّارِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ"، قَالَ يَحْيَى، قَالَ: هُوَ هَكَذَا، يَعْنِي: كَمَا قَرَأْتَ عَلَيَّ.
یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمان حمیری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہماری ملاقات سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہوئی، ہم نے ان کے سامنے مسئلہ تقدیر کو چھیڑا اور لوگوں کے اعتراضات کا بھی ذکر کیا، ہماری بات سن کر انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤ تو ان سے کہہ دینا کہ ابن عمر تم سے بَری ہے اور تم اس سے بَری ہو، یہ بات تین مرتبہ کہہ کر انہوں نے یہ روایت سنائی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، خوبصورت رنگ، خوبصورت بال اور سفید کپڑوں میں ملبوس اس آدمی کو دیکھ کر لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اشاروں میں کہنے لگے کہ ہم تو اسے نہیں پہچانتے اور یہ مسافر بھی نہیں لگتا۔ اس آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں قریب آ سکتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی، چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے گھٹنے ملا کر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اسلام کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہو ہی نہیں سکتا اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں، نیز یہ کہ آپ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، رمضان کے روزے رکھیں اور حج بیت اللہ کریں۔“ اس نے اگلا سوال یہ پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ فرمایا: ”تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، جنت وجہنم، قیامت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور تقدیر پر یقین رکھو“، اس نے پھر پوچھا کہ احسان کیا ہے؟ فرمایا: ”تم اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کوئی عمل اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم یہ تصور نہیں کر سکتے تو کم از کم یہی تصور کر لو کہ وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔“ اس نے پھر پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ فرمایا: ”جس سے سوال پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا یعنی ہم دونوں ہی اس معاملے میں بےخبر ہیں“، اس نے کہا کہ پھر اس کی کچھ علامات ہی بتا دیجئے؟ فرمایا: ”جب تم یہ دیکھو کہ جن کے جسم پر چیتھڑا اور پاؤں میں لیترا نہیں ہوتا تھا، غریب اور چرواہے تھے، آج وہ بڑی بڑی بلڈنگیں اور عمارتیں بنا کر ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں، لونڈیاں اپنی مالکن کو جنم دینے لگیں تو قیامت قریب آ گئی۔“ جب وہ آدمی چلا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا اس آدمی کو بلا کر لانا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی تلاش میں نکلے تو انہیں کچھ نظر نہ آیا، دو تین دن بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اے ابن خطاب! کیا تمہیں علم ہے کہ وہ سائل کون تھا؟“ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: ”وہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اہم باتیں سکھانے آئے تھے۔“ راوی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبیلہ جہینہ یا مزینہ کے ایک آدمی نے بھی یہ سوال پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ! ہم جو عمل کرتے ہیں کیا ان کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا ہے؟ فرمایا: ”ان کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہے“، اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر عمل کا کیا فائدہ؟ فرمایا: ”اہل جنت کے لئے اہل جنت کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں اور اہل جہنم کے لئے اہل جہنم کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں۔“