مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
0
3. مُسْنَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 266
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَ أَهْلُ الْيَمَنِ جَعَلَ عُمَرُ يَسْتَقْرِي الرِّفَاقَ، فَيَقُولُ: هَلْ فِيكُمْ أَحَدٌ مِنْ قَرَنٍ؟ حَتَّى أَتَى عَلَى قَرَنٍ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا: قَرَنٌ، فَوَقَعَ زِمَامُ عُمَرَ، أَوْ: زِمَامُ أُوَيْسٍ، فَنَاوَلَهُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ، فَعَرَفَهُ، فَقَالَ عُمَرُ: مَا اسْمُكَ؟ قَالَ: أَنَا أُوَيْسٌ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ وَالِدَةٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَهَلْ كَانَ بِكَ مِنَ الْبَيَاضِ شَيْءٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَدَعَوْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَأَذْهَبَهُ عَنِّي إِلَّا مَوْضِعَ الدِّرْهَمِ مِنْ سُرَّتِي لِأَذْكُرَ بِهِ رَبِّي، قَالَ لَهُ عُمَرُ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ أَحَقُّ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لِي، أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ خَيْرَ التَّابِعِينَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: أُوَيْسٌ، وَلَهُ وَالِدَةٌ، وَكَانَ بِهِ بَيَاضٌ، فَدَعَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَأَذْهَبَهُ عَنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ الدِّرْهَمِ فِي سُرَّتِهِ"، فَاسْتَغْفَرَ لَهُ، ثُمَّ دَخَلَ فِي غِمَارِ النَّاسِ، فَلَمْ يُدْرَ أَيْنَ وَقَعَ، قَالَ: فَقَدِمَ الْكُوفَةَ، قَالَ: وَكُنَّا نَجْتَمِعُ فِي حَلْقَةٍ، فَنَذْكُرُ اللَّهَ، وَكَانَ يَجْلِسُ مَعَنَا، فَكَانَ إِذَا ذَكَرَ هُوَ وَقَعَ حَدِيثُهُ مِنْ قُلُوبِنَا مَوْقِعًا لَا يَقَعُ حَدِيثُ غَيْرِهِ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
اسیر بن جابر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل یمن کا وفد آیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنی اونٹنی کی رسی تلاش کرتے جاتے تھے اور پوچھتے جاتے تھے کہ کیا تم میں سے کوئی ”قرن“ سے بھی آیا ہے، یہاں تک کہ وہ پوچھتے پوچھتے ”قرن“ کے لوگوں کے پاس آ پہنچے اور ان سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارا تعلق ”قرن“ سے ہے، اتنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی یا سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ کے ہاتھ سے جانوروں کی لگام چھوٹ کر گر پڑی، ان میں سے ایک نے دوسرے کو اٹھا کر وہ لگام دی تو ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ آپ کا اسم گرامی کیا ہے؟ عرض کیا: اویس! فرمایا: کیا آپ کی کوئی والدہ بھی تھیں؟ عرض کیا: جی ہاں! فرمایا: کیا آپ کے جسم پر چیچک کا بھی کوئی نشان ہے؟ عرض کیا: جی ہاں! لیکن میں نے اللہ سے دعا کی تو اللہ نے اسے ختم کر دیا، اب وہ نشان میری ناف کے پاس صرف ایک درہم کے برابر رہ گیا ہے تاکہ اسے دیکھ کر مجھے اپنے رب کی یاد آتی رہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ اللہ سے میرے لئے بخشش کی دعا کیجئے، انہوں نے عرض کیا کہ آپ صحابی رسول ہیں، آپ میرے حق میں بخشش کی دعا کیجئے، اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خیرالتابعین اویس نامی ایک آدمی ہو گا، جس کی والدہ بھی ہو گی اور اس کے جسم پر چیچک کے نشانات ہوں گے، پھر جب وہ اللہ سے دعا کرے گا تو ناف کے پاس ایک درہم کے برابر جگہ کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اس بیماری کو اس سے دور فرما دیں گے، سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لئے بخشش کی دعا کی اور لوگوں کے ہجوم میں گھس کر غائب ہو گئے، کسی کو پتہ نہ چل سکا کہ وہ کہاں چلے گئے۔ بعد میں وہ کوفہ آ گئے تھے، راوی کہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ایک حلقہ بنا کر ذکر کیا کرتے تھے، یہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھتے تھے، جب یہ ذکر کرتے تھے تو ان کی بات ہمارے دلوں پر اتنا اثر کرتی تھی کہ کسی دوسرے کی بات اتنا اثر نہیں کرتی تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م :2542