مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر

مسند احمد
3. مُسْنَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
حدیث نمبر: 208
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نوح قراد ، انبانا عكرمة بن عمار ، حدثنا سماك الحنفي ابو زميل ، حدثني ابن عباس ، حدثني عمر بن الخطاب ، قال: لما كان يوم بدر، قال: نظر النبي صلى الله عليه وسلم إلى اصحابه وهم ثلاث مائة ونيف، ونظر إلى المشركين، فإذا هم الف وزيادة، فاستقبل النبي صلى الله عليه وسلم القبلة، ثم مد يديه، وعليه رداؤه وإزاره، ثم قال:" اللهم اين ما وعدتني؟ اللهم انجز ما وعدتني، اللهم إنك إن تهلك هذه العصابة من اهل الإسلام، فلا تعبد في الارض ابدا"، قال: فما زال يستغيث ربه عز وجل، ويدعوه حتى سقط رداؤه، فاتاه ابو بكر، فاخذ رداءه، فرداه ثم التزمه من ورائه، ثم قال: يا نبي الله، كفاك مناشدتك ربك، فإنه سينجز لك ما وعدك، وانزل الله عز وجل: إذ تستغيثون ربكم فاستجاب لكم اني ممدكم بالف من الملائكة مردفين سورة الانفال آية 9، فلما كان يومئذ، والتقوا، فهزم الله عز وجل المشركين، فقتل منهم سبعون رجلا، واسر منهم سبعون رجلا، فاستشار رسول الله صلى الله عليه وسلم ابا بكر، وعليا، وعمر، فقال ابو بكر: يا نبي الله، هؤلاء بنو العم والعشيرة والإخوان، فإني ارى ان تاخذ منهم الفدية، فيكون ما اخذنا منهم قوة لنا على الكفار، وعسى الله ان يهديهم، فيكونون لنا عضدا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما ترى يا ابن الخطاب؟ قال: قلت: والله ما ارى ما راى ابو بكر، ولكني ارى ان تمكنني من فلان قريبا لعمر، فاضرب عنقه، وتمكن عليا من عقيل، فيضرب عنقه، وتمكن حمزة من فلان اخيه، فيضرب عنقه، حتى يعلم الله انه ليست في قلوبنا هوادة للمشركين، هؤلاء صناديدهم وائمتهم وقادتهم، فهوي رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قال ابو بكر، ولم يهو ما قلت، فاخذ منهم الفداء، فلما ان كان من الغد، قال عمر: غدوت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا هو قاعد وابو بكر، وإذا هما يبكيان، فقلت: يا رسول الله، اخبرني ماذا يبكيك انت وصاحبك؟ فإن وجدت بكاء بكيت، وإن لم اجد بكاء تباكيت لبكائكما، قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" الذي عرض علي اصحابك من الفداء، لقد عرض علي عذابكم ادنى من هذه الشجرة، لشجرة قريبة، وانزل الله عز وجل: ما كان لنبي ان يكون له اسرى حتى يثخن في الارض إلى قوله لولا كتاب من الله سبق لمسكم فيما اخذتم سورة الانفال آية 67 - 68 من الفداء، ثم احل لهم الغنائم، فلما كان يوم احد من العام المقبل، عوقبوا بما صنعوا يوم بدر من اخذهم الفداء، فقتل منهم سبعون، وفر اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم، وكسرت رباعيته، وهشمت البيضة على راسه، وسال الدم على وجهه، وانزل الله تعالى: اولما اصابتكم مصيبة قد اصبتم مثليها قلتم انى هذا قل هو من عند انفسكم إن الله على كل شيء قدير سورة آل عمران آية 165، باخذكم الفداء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ قُرَادٌ ، أَنْبَأَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ، قَالَ: نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَصْحَابِهِ وَهُمْ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَنَيِّفٌ، وَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ، فَإِذَا هُمْ أَلْفٌ وَزِيَادَةٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ، ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ، وَعَلَيْهِ رِدَاؤُهُ وَإِزَارُهُ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ أَيْنَ مَا وَعَدْتَنِي؟ اللَّهُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ إِنَّكَ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَلَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا"، قَالَ: فَمَا زَالَ يَسْتَغِيثُ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَيَدْعُوهُ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ، فَرَدَّاهُ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كَفَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ، فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ سورة الأنفال آية 9، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُئِذٍ، وَالْتَقَوْا، فَهَزَمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُشْرِكِينَ، فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، وَأُسِرَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ، وَعَلِيًّا، وَعُمَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، هَؤُلَاءِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةُ وَالْإِخْوَانُ، فَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمْ الْفِدْيَةَ، فَيَكُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْهُمْ قُوَّةً لَنَا عَلَى الْكُفَّارِ، وَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُمْ، فَيَكُونُونَ لَنَا عَضُدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَرَى يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ قَالَ: قُلْتُ: وَاللَّهِ مَا أَرَى مَا رَأَى أَبُو بَكْرٍ، وَلَكِنِّي أَرَى أَنْ تُمَكِّنَنِي مِنْ فُلَانٍ قَرِيبًا لِعُمَرَ، فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، وَتُمَكِّنَ عَلِيًّا مِنْ عَقِيلٍ، فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ، وَتُمَكِّنَ حَمْزَةَ مِنْ فُلَانٍ أَخِيهِ، فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ، حَتَّى يَعْلَمَ اللَّهُ أَنَّهُ لَيْسَتْ فِي قُلُوبِنَا هَوَادَةٌ لِلْمُشْرِكِينَ، هَؤُلَاءِ صَنَادِيدُهُمْ وَأَئِمَّتُهُمْ وَقَادَتُهُمْ، فَهَوِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ، وَلَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ، فَأَخَذَ مِنْهُمْ الْفِدَاءَ، فَلَمَّا أَنْ كَانَ مِنَ الْغَدِ، قَالَ عُمَرُ: غَدَوْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَكْرٍ، وَإِذَا هُمَا يَبْكِيَانِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي مَاذَا يُبْكِيكَ أَنْتَ وَصَاحِبَكَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَاءً بَكَيْتُ، وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُكَاءً تَبَاكَيْتُ لِبُكَائِكُمَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُكَ مِنَ الْفِدَاءِ، لَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُكُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، لِشَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ إِلَى قَوْلِهِ لَوْلا كِتَابٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ سورة الأنفال آية 67 - 68 مِنَ الْفِدَاءِ، ثُمَّ أُحِلَّ لَهُمْ الْغَنَائِمُ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ، عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا يَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِهِمْ الْفِدَاءَ، فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ، وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ، وَهُشِمَتْ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ، وَسَالَ الدَّمُ عَلَى وَجْهِهِ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ سورة آل عمران آية 165، بِأَخْذِكُمْ الْفِدَاءَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کا جائزہ لیا تو وہ تین سو سے کچھ اوپر تھے اور مشرکین کا جائزہ لیا وہ ایک ہزار سے زیادہ معلوم ہوئے، یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہو کر دعا کے لئے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت چادر اوڑھ رکھی تھی، دعا کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الٰہی! تیرا وعدہ کہاں گیا؟ الٰہی اپنا وعدہ پورا فرما، الٰہی اگر آج یہ مٹھی بھر مسلمان ختم ہو گئے تو زمین میں پھر کبھی بھی آپ کی عبادت نہیں کی جائے گی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستقل اپنے رب سے فریاد کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی رداء مبارک گر گئی، یہ دیکھ کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈال دیا اور پیچھے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چمٹ گئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے نبی! آپ نے اپنے رب سے بہت دعا کر لی، وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی کہ اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اور اس نے تمہاری فریاد کو قبول کر لیا تھا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار فرشتوں سے کروں گا جو لگاتار آئیں گے۔ جب غزوہ بدر کا معرکہ بپا ہوا اور دونوں لشکر ایک دوسرے سے ملے تو اللہ کے فضل سے مشرکین کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، چنانچہ ان میں سے ستر قتل ہو گئے اور ستر ہی گرفتار کر کے قید کر لئے گئے، ان قیدیوں کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر، سیدنا علی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا اے اللہ کے نبی! یہ لوگ ہمارے ہی بھائی بند اور رشتہ دار ہیں، میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، وہ مال کافروں کے خلاف ہماری طاقت میں اضافہ کرے گا اور عین ممکن ہے کہ اللہ انہیں بھی ہدایت دے دے تو یہ بھی ہمارے دست و بازو بن جائیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ابن خطاب! تمہاری رائے کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میری رائے وہ نہیں ہے جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ہے، میری رائے یہ ہے کہ آپ فلاں آدمی کو جو عمر کا قریبی رشتہ دار تھا میرے حوالے کر دیں اور میں اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اڑا دوں، آپ عقیل کو علی کے حوالے کر دیں اور وہ ان کی گردن اڑا دیں، حمزہ کو فلاں پر غلبہ عطا فرمائیں اور وہ اپنے ہاتھ سے اسے قتل کریں، تاکہ اللہ جان لے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لئے کوئی نرمی کا پہلو نہیں ہے، یہ لوگ مشرکین کے سردار، ان کے قائد اور ان کے سرغنہ ہیں، جب یہ قتل ہو جائیں گے تو کفر و شرک اپنی موت آپ مر جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دی اور میری رائے کو چھوڑ دیا اور ان سے فدیہ لے لیا، اگلے دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! خیر تو ہے آپ اور آپ کے دوست (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ) رو رہے ہیں؟ مجھے بھی بتائیے تاکہ اگر میری آنکھوں میں بھی آنسو آ جائیں تو آپ کا ساتھ دوں ورنہ کم از کم رونے کی کوشش ہی کر لوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے ساتھیوں نے مجھے فدیہ کا جو مشورہ دیا تھا اس کی وجہ سے تم سب پر آنے والا عذاب مجھے اتنا قریب دکھائی دیا جتنا یہ درخت نظر آ رہا ہے اور اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اگر ان کے پاس قیدی آئیں۔۔۔ آخر آیت تک، بعد میں ان کے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دے دیا گیا۔ آئندہ سال جب غزوہ احد ہوا تو غزوہ بدر میں فدیہ لینے کے عوض مسلمانوں کے ستر آدمی شہید ہو گئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر منتشر ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہو گئے، خَود کی کڑی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک میں گھس گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے انور خون سے بھر گیا اور یہ آیت قرآنی نازل ہوئی کہ جب تم پر وہ مصیبت نازل ہوئی جو اس سے قبل تم مشرکین کو خود بھی پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ یہ کیسے ہو گیا؟ آپ فرما دیجئے کہ یہ تمہاری طرف سے ہی ہے، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ شکست فدیہ لینے کی وجہ سے ہوئی۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن، م: 1763


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.