مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
0
3. مُسْنَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 222
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا عَلَى أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اللَّتَيْنِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا سورة التحريم آية 4، حَتَّى حَجَّ عُمَرُ وَحَجَجْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ عُمَرُ، وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالْإِدَاوَةِ، فَتَبَرَّزَ ثُمَّ أَتَانِي، فَسَكَبْتُ عَلَى يَدَيْهِ، فَتَوَضَّأَ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنْ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا سورة التحريم آية 4؟ فَقَالَ عُمَرُ : وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ! قَالَ الزُّهْرِيُّ: كَرِهَ، وَاللَّهِ، مَا سَأَلَهُ عَنْهُ وَلَمْ يَكْتُمْهُ عَنْهُ، قَالَ: هُمَا حَفْصَةُ، وَعَائِشَةُ، قَالَ ثُمَّ أَخَذَ يَسُوقُ الْحَدِيثَ، قَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، قَالَ: وَكَانَ مَنْزِلِي فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ بِالْعَوَالِي، قَالَ: فَغَضَّبْتُ يَوْمًا عَلَى امْرَأَتِي، فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ، فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ، وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ، فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: أَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاكُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْكُنَّ وَخَسِرَ، أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ، فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ؟ لَا تُرَاجِعِي رَسُولَ اللَّهِ وَلَا تَسْأَلِيهِ شَيْئًا، وَسَلِينِي مَا بَدَا لَكِ، وَلَا يَغُرَّنَّكِ إِنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمَ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ مِنْكِ، يُرِيدُ عَائِشَةَ، قَالَ: وَكَانَ لِي جَارٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَنْزِلُ يَوْمًا، وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَيَأْتِينِي بِخَبَرِ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ، وَآتِيهِ بِمِثْلِ ذَلِكَ، قَالَ: وَكُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِتَغْزُوَنَا، فَنَزَلَ صَاحِبِي يَوْمًا، ثُمَّ أَتَانِي عِشَاءً، فَضَرَبَ بَابِي، ثُمَّ نَادَانِي فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ، قُلْتُ: وَمَاذَا، أَجَاءَتْ غَسَّانُ؟ قَالَ: لَا، بَلْ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ وَأَطْوَلُ، طَلَّقَ الرَّسُولُ نِسَاءَهُ، فَقُلْتُ: قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ، قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هَذَا كَائِنًا، حَتَّى إِذَا صَلَّيْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي، ثُمَّ نَزَلْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَهِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: لَا أَدْرِي، هُوَ هَذَا مُعْتَزِلٌ فِي هَذِهِ الْمَشْرُبَةِ، فَأَتَيْتُ غُلَامًا لَهُ أَسْوَدَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ الْغُلَامُ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَتَيْتُ الْمِنْبَرَ، فَإِذَا عِنْدَهُ رَهْطٌ جُلُوسٌ يَبْكِي بَعْضُهُمْ، فَجَلَسْتُ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ الْغُلَامُ ثُمَّ خَرَجَ إِليَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ، فَخَرَجْتُ، فَجَلَسْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ، فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا، فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي، فَقَالَ: ادْخُلْ، فَقَدْ أَذِنَ لَكَ، فَدَخَلْتُ، فَسَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ. ح وحَدَّثَنَاه يَعْقُوبُ ، فِي حَدِيثِ صَالِحٍ ، قَالَ: رُمَالِ حَصِيرٍ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ، فَقُلْتُ: أَطَلَّقْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ نِسَاءَكَ؟ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيَّ، وَقَالَ:" لَا"، فَقُلْتُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، لَوْ رَأَيْتَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، فَتَغَضَّبْتُ عَلَى امْرَأَتِي يَوْمًا، فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ؟ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ، وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْهُنَّ وَخَسِرَ، أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاهُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ، فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ؟ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ لَا يَغُرُّكِ إِنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمَ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ، فَتَبَسَّمَ أُخْرَى، فَقُلْتُ: أَسْتَأْنِسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، فَجَلَسْتُ، فَرَفَعْتُ رَأْسِي فِي الْبَيْتِ، فَوَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ فِيهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ، إِلَّا أَهَبَةً ثَلَاثَةً، فَقُلْتُ: ادْعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى أُمَّتِكَ، فَقَدْ وُسِّعَ عَلَى فَارِسَ، وَالرُّومِ، وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَ اللَّهَ، فَاسْتَوَى جَالِسًا، ثُمَّ قَالَ:" أَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا"، فَقُلْتُ: اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَانَ أَقْسَمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا مِنْ شِدَّةِ مَوْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ، حَتَّى عَاتَبَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات کی بڑی آرزو تھی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو ازواج مطہرات کے بارے سوال کروں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ اگر تم دونوں توبہ کر لو تو اچھا ہے کیونکہ تمہارے دل ٹیڑھے ہوچکے ہیں۔“ لیکن ہمت نہیں ہوتی تھی، حتیٰ کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لے گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا، راستے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے ہٹ کر چلنے لگے، میں بھی پانی کا برتن لے کر ان کے پیچھے چلا گیا، انہوں نے اپنی طبعی ضرورت پوری کی اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وضو کرنے لگے۔ اس دوران مجھے موقع مناسب معلوم ہوا، اس لئے میں نے پوچھ ہی لیا کہ امیر المؤمنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے وہ دو عورتیں کون تھیں جن کے بارے اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ اگر تم توبہ کر لو تو اچھا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابن عباس! حیرانگی کی بات ہے کہ تمہیں یہ بات معلوم نہیں، وہ دونوں عائشہ اور حفصہ تھیں اور فرمایا کہ ہم قریش کے لوگ اپنی عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے، لیکن جب ہم مدینہ منورہ میں آئے تو یہاں کی عورتیں، مردوں پر غالب نظر آئیں، ان کی دیکھا دیکھی ہماری عورتوں نے بھی ان سے یہ طور طریقے سیکھنا شروع کر دئیے۔ میرا گھر اس وقت عوالی میں بنو امیہ بن زید کے پاس تھا، ایک دن میں نے اپنی بیوی پر غصہ کا اظہار کسی وجہ سے کیا تو وہ الٹا مجھے جواب دینے لگی، مجھے بڑا تعجب ہوا، وہ کہنے لگی کہ میرے جواب دینے پر تو آپ کو تعجب ہو رہا ہے بخدا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی انہیں جواب دیتی ہیں بلکہ بعض اوقات تو ان میں سے کوئی سارا دن تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات ہی نہیں کرتی۔ یہ سنتے ہی میں اپنی بیٹی حفصہ کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ کیا تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تکرار کرتی ہو؟ انہوں نے اقرار کیا، پھر میں نے پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی سارا دن تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات ہی نہیں کرتی؟ انہوں نے اس پر اقرار کیا، میں نے کہا کہ تم میں سے جو یہ کرتا ہے وہ بڑے نقصان اور خسارے میں ہے، کیا تم لوگ اس بات پر مطمئن ہو کہ اپنے پیغمبر کو ناراض دیکھ کر تم میں سے کسی پر اللہ کا غضب نازل ہو اور وہ ہلاک ہو جائے۔ خبردار! تم آئندہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بات پر نہ تکرار کرنا اور نہ ان سے کسی چیز کا مطالبہ کرنا، جس چیز کی ضرورت ہو مجھے بتا دینا اور اپنی سہیلی یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ چہیتی اور لاڈلی سمجھ کر کہیں تم دھوکے میں نہ رہنا۔ میرا ایک انصاری پڑوسی تھا، ہم دونوں نے باری مقرر کر رکھی تھی، ایک دن وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ایک دن میں، وہ اپنے دن کی خبریں اور وحی مجھے سنا دیتا اور میں اپنی باری کی خبریں اور وحی اسے سنا دیتا، اس زمانے میں ہم لوگ آپس میں یہ گفتگو ہی کرتے رہتے تھے کہ بنو غسان کے لوگ ہم سے مقابلے کے لئے اپنے گھوڑوں کے نعل ٹھونک رہے ہیں، اس تناظر میں میرا پڑوسی ایک دن عشاء کے وقت میرے گھر آیا اور زور زور سے دروازہ بجایا، پھر مجھے آوازیں دینے لگا، میں جب باہر نکل کر آیا تو وہ کہنے لگا کہ آج تو ایک بڑا اہم واقعہ پیش آیا ہے، میں نے پوچھا کہ کیا بنوغسان نے حملہ کر دیا؟ اس نے کہا: نہیں! اس سے بھی زیادہ اہم واقعہ پیش آیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے، میں نے یہ سنتے ہی کہا کہ حفصہ خسارے میں رہ گئی، مجھے پتہ تھا کہ یہ ہو کر رہے گا۔ خیر! فجر کی نماز پڑھ کر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور سیدھا حفصہ کے پاس پہنچا، وہ رو رہی تھیں، میں نے ان سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے کچھ خبر نہیں، وہ اس بالاخانے میں اکیلے رہ رہے ہیں، میں وہاں پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سیاہ فام غلام ملا، میں نے کہا کہ میرے لئے اندر داخل ہونے کی اجازت لے کر آؤ، وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد آ کر کہنے لگا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا ذکر کر دیا تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ میں وہاں سے آ کر منبر کے قریب پہنچا تو وہاں بھی بہت سے لوگوں کو بیٹھے روتا ہوا پایا، میں بھی تھوڑی دیر کے لئے وہاں بیٹھ گیا، لیکن پھر بے چینی مجھ پر غالب آ گئی اور میں نے دوبارہ اس غلام سے جا کر کہا کہ میرے لئے اجازت لے کر آؤ، وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد ہی آ کر کہنے لگا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا ذکر کیا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، تین مرتبہ اس طرح ہونے کے بعد جب میں واپس جانے لگا تو غلام نے مجھے آواز دی کہ آئیے، آپ کو اجازت مل گئی ہے۔ میں نے اندر داخل ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں جس کے نشانات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوئے مبارک پر نظر آ رہے ہیں، میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا: ”نہیں“، میں نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور عرض کیا، یا رسول اللہ! دیکھئے تو سہی، ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں پر غالب رہتے تھے، جب مدینہ منورہ پہنچے تو یہاں ایسے لوگوں سے پالا پڑا جن پر ان کی عورتیں غالب رہتی ہیں، ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ان کے طور طریقے سیکھنا شروع کر دیئے، چنانچہ ایک دن میں اپنی بیوی سے کسی بات پر ناراض ہوا، تو وہ الٹا مجھے جواب دینے گئی، مجھے تعجب ہوا، تو وہ کہنے لگی کہ آپ کو میرے جواب دینے تعجب ہو رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی انہیں جواب دیتی ہیں اور سارا سارا دن تک ان سے بات نہیں کرتیں۔ میں نے کہا کہ جو ایسا کرتی ہے وہ نقصان اور خسارے میں ہے، کیا وہ اس بات سے مطمئن رہتی ہیں کہ اگر اپنے پیغمبر کی ناراضگی پر اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا تو وہ ہلاک نہیں ہوں گی؟ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، میں نے مزید عرض کیا، یا رسول اللہ! اس کے بعد میں حفصہ کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ تو اس بات سے دھوکے میں نہ رہ کہ تیری سہیلی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ چہیتی اور لاڈلی ہے، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مسکرائے۔ پھر میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا میں بےتکلف ہو سکتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی، چنانچہ میں نے سر اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانہ اقدس کا جائزہ لینا شروع کر دیا، اللہ کی قسم! مجھے وہاں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس کی طرف بار بار نظریں اٹھیں، سوائے تین کچی کھالوں کے، میں نے یہ دیکھ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ آپ کی امت پر وسعت اور کشادگی فرمائے، فارس اور روم جو ”اللہ کی عبادت نہیں کرتے“ ان پر تو بڑی فراخی کی گئی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: ابن خطاب! کیا تم اب تک شک میں مبتلا ہو؟ ان لوگوں کو دنیا میں ہی ساری چیزیں دے دی گئی ہیں، میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے لیے بخشش کی دعاء فرما دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل میں یہ قسم کھائی تھی کہ ایک مہینے تک اپنی ازواج مطہرات کے پاس نہیں جائیں گے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر سخت غصہ اور غم تھا، تا آنکہ الله تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس سلسلے میں وحی نازل فرما دی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 89، م: 1479