(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، انا سالته، حدثنا سليمان بن المغيرة ، حدثنا ثابت ، عن انس ، قال: كنا مع عمر بين مكة، والمدينة، فتراءينا الهلال، وكنت حديد البصر، فرايته، فجعلت اقول لعمر : اما تراه؟ قال: ساراه وانا مستلق على فراشي، ثم اخذ يحدثنا عن اهل بدر، قال: إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليرينا مصارعهم بالامس، يقول:" هذا مصرع فلان غدا، إن شاء الله تعالى، وهذا مصرع فلان غدا، إن شاء الله تعالى"، قال: فجعلوا يصرعون عليها، قال: قلت: والذي بعثك بالحق، ما اخطئوا تيك، كانوا يصرعون عليها، ثم امر بهم، فطرحوا في بئر، فانطلق إليهم، فقال:" يا فلان، يا فلان، هل وجدتم ما وعدكم الله حقا، فإني وجدت ما وعدني الله حقا"، قال عمر: يا رسول الله، اتكلم قوما قد انتنوا؟ قال:" ما انتم باسمع لما اقول منهم، ولكن لا يستطيعون ان يجيبوا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، أَنَا سَأَلْتُهُ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عُمَرَ بَيْنَ مَكَّةَ، وَالْمَدِينَةِ، فَتَرَاءَيْنَا الْهِلَالَ، وَكُنْتُ حَدِيدَ الْبَصَرِ، فَرَأَيْتُهُ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ لِعُمَرَ : أَمَا تَرَاهُ؟ قَالَ: سَأَرَاهُ وَأَنَا مُسْتَلْقٍ عَلَى فِرَاشِي، ثُمَّ أَخَذَ يُحَدِّثُنَا عَنْ أَهْلِ بَدْرٍ، قَالَ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرِينَا مَصَارِعَهُمْ بِالْأَمْسِ، يَقُولُ:" هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى، وَهَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى"، قَالَ: فَجَعَلُوا يُصْرَعُونَ عَلَيْهَا، قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، مَا أَخْطَئوا تِيكَ، كَانُوا يُصْرَعُونَ عَلَيْهَا، ثُمَّ أَمَرَ بِهِمْ، فَطُرِحُوا فِي بِئْرٍ، فَانْطَلَقَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ:" يَا فُلَانُ، يَا فُلَانُ، هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمْ اللَّهُ حَقًّا، فَإِنِّي وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي اللَّهُ حَقًّا"، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُكَلِّمُ قَوْمًا قَدْ أَنْتَنُوا؟ قَالَ:" مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ، وَلَكِنْ لَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يُجِيبُوا".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان تھے کہ ہمیں پہلی کا چاند دکھائی دیا، میری بصارت تیز تھی اس لئے میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ دیکھ رہے ہیں؟ فرمایا: میں ابھی دیکھتا ہوں، میں اس وقت فرش پر چت لیٹا ہوا تھا، پھر عمر رضی اللہ عنہ اہل بدر کے حوالے سے حدیث بیان کرنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دن پہلے ہی وہ تمام جگہیں دکھا دیں جہاں کفار کی لاشیں گرنی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دکھاتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ یہاں فلاں کی لاش گرے گی اور ان شاء اللہ کل یہاں فلاں شخص قتل ہو گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ انہی جگہوں پر گرنے لگے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے یہ تو اس جگہ سے ”جس کی نشاندہی آپ نے فرمائی تھی“ ذرا بھی ادھر ادھر نہیں ہوئے، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ان کی لاشیں گھسیٹ کر ایک کنویں میں پھینک دی گئیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کنوئیں کے پاس جا کر کھڑے ہوئے اور ایک ایک کا نام لے کر فرمایا کہ کیا تم نے اپنے پروردگار کے وعدے کو سچا پایا یا نہیں؟ میں نے تو اپنے پروردگار کے وعدے کو سچا پایا، میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ان لوگوں سے گفتگو فرما رہے ہیں جو مردار ہو چکے، فرمایا: ”میں ان سے جو کچھ کہہ رہا تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ جواب نہیں دے سکتے (اور تم جواب دے سکتے ہو)۔“