(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة . وحجاج ، قال: سمعت شعبة ، عن عاصم بن عبيد الله ، عن سالم ، عن ابن عمر ، عن عمر :" انه قال للنبي صلى الله عليه وسلم: ارايت ما نعمل فيه، اقد فرغ منه، او في شيء مبتدإ، او امر مبتدع؟ قال:" فيما قد فرغ منه"، فقال عمر: الا نتكل؟ فقال:" اعمل يا ابن الخطاب، فكل ميسر، اما من كان من اهل السعادة، فيعمل للسعادة، واما اهل الشقاء، فيعمل للشقاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . وَحَجَّاجٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ شُعْبَةَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ :" أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتَ مَا نَعْمَلُ فِيهِ، أَقَدْ فُرِغَ مِنْهُ، أَوْ فِي شَيْءٍ مُبْتَدَإٍ، أَوْ أَمْرٍ مُبْتَدَعٍ؟ قَالَ:" فِيمَا قَدْ فُرِغَ مِنْهُ"، فَقَالَ عُمَرُ: أَلَا نَتَّكِلُ؟ فَقَالَ:" اعْمَلْ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ، أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ، فَيَعْمَلُ لِلسَّعَادَةِ، وَأَمَّا أَهْلُ الشَّقَاءِ، فَيَعْمَلُ لِلشَّقَاءِ".
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہم جو عمل کرتے ہیں، کیا وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا؟ فرمایا: ”نہیں! بلکہ وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے“، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کیا ہم اسی پر بھروسہ نہ کر لیں؟ فرمایا: ”ابن خطاب! عمل کرتے رہو کیونکہ جو شخص جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اسے اس کے اسباب مہیا کر دئیے جاتے ہیں اور وہ عمل اس کے لئے آسان کر دیا جاتا ہے، پھر جو سعادت مند ہوتا ہے وہ نیکی کے کام کرتا ہے اور جو اشقیاء میں سے ہوتا ہے وہ بدبختی کے کام کرتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عاصم بن عبيدالله