(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يحيى بن حماد ، وعفان ، قالا: حدثنا ابو عوانة ، عن داود بن عبد الله الاودي ، عن حميد بن عبد الرحمن الحميري ، حدثنا ابن عباس بالبصرة، قال: انا اول من اتى عمر حين طعن، فقال:" احفظ عني ثلاثا، فإني اخاف ان لا يدركني الناس: اما انا فلم اقض في الكلالة قضاء، ولم استخلف على الناس خليفة، وكل مملوك له عتيق، فقال له الناس: استخلف، فقال: اي ذلك افعل فقد فعله من هو خير مني، إن ادع إلى الناس امرهم، فقد تركه نبي الله عليه الصلاة والسلام، وإن استخلف، فقد استخلف من هو خير مني: ابو بكر، فقلت له: ابشر بالجنة، صاحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاطلت صحبته، ووليت امر المؤمنين فقويت، واديت الامانة، فقال: اما تبشيرك إياي بالجنة، فوالله لو ان لي، قال عفان: فلا والله الذي لا إله إلا هو، لو ان لي الدنيا بما فيها، لافتديت به من هول ما امامي قبل ان اعلم الخبر، واما قولك في امر المؤمنين، فوالله لوددت ان ذلك كفافا، لا لي ولا علي، واما ما ذكرت من صحبة نبي الله صلى الله عليه وسلم، فذلك".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَوْدِيِّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ بِالْبَصْرَةِ، قَالَ: أَنَا أَوَّلُ مَنْ أَتَى عُمَرَ حِينَ طُعِنَ، فَقَالَ:" احْفَظْ عَنِّي ثَلَاثًا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ لَا يُدْرِكَنِي النَّاسُ: أَمَّا أَنَا فَلَمْ أَقْضِ فِي الْكَلَالَةِ قَضَاءً، وَلَمْ أَسْتَخْلِفْ عَلَى النَّاسِ خَلِيفَةً، وَكُلُّ مَمْلُوكٍ لَهُ عَتِيقٌ، فَقَالَ لَهُ النَّاسُ: اسْتَخْلِفْ، فَقَالَ: أَيَّ ذَلِكَ أَفْعَلُ فَقَدْ فَعَلَهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي، إِنْ أَدَعْ إِلَى النَّاسِ أَمْرَهُمْ، فَقَدْ تَرَكَهُ نَبِيُّ اللَّهِ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ، وَإِنْ أَسْتَخْلِفْ، فَقَدْ اسْتَخْلَفَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي: أَبُو بَكْرٍ، فَقُلْتُ لَهُ: أَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ، صَاحَبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَطَلْتَ صُحْبَتَهُ، وَوُلِّيتَ أَمْرَ الْمُؤْمِنِينَ فَقَوِيتَ، وَأَدَّيْتَ الْأَمَانَةَ، فَقَالَ: أَمَّا تَبْشِيرُكَ إِيَّايَ بِالْجَنَّةِ، فَوَاللَّهِ لَوْ أَنَّ لِي، قَالَ عَفَّانُ: فَلَا وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، لَوْ أَنَّ لِي الدُّنْيَا بِمَا فِيهَا، لَافْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ هَوْلِ مَا أَمَامِي قَبْلَ أَنْ أَعْلَمَ الْخَبَرَ، وَأَمَّا قَوْلُكَ فِي أَمْرِ الْمُؤْمِنِينَ، فَوَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنَّ ذَلِكَ كَفَافًا، لَا لِي وَلَا عَلَيَّ، وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ صُحْبَةِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَلِكَ".
حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ بصرہ میں ہمیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث سنائی کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے تو سب سے پہلے ان کے پاس پہنچنے والا میں ہی تھا، انہوں نے فرمایا کہ میری تین باتیں یاد رکھو، کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ لوگ جب تک آئیں گے اس وقت تک میں نہیں بچوں گا اور لوگ مجھے نہ پا سکیں گے، کلالہ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرتا، لوگوں پر اپنا نائب اور خلیفہ کسی کو نامزد نہیں کرتا اور میرا ہر غلام آزاد ہے۔ لوگوں نے ان سے عرض کیا کہ امیر المؤمنین! کسی کو اپنا خلفیہ نامزد کر دیجئے، انہوں نے فرمایا کہ میں جس پہلو کو بھی اختیار کروں، اسے مجھ سے بہتر ذات نے اختیار کیا ہے، چنانچہ اگر میں لوگوں کا معاملہ ان ہی کے حوالے کر دوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا تھا اور اگر کسی کو اپنا خلیفہ مقرر کر دوں تو مجھ سے بہتر ذات نے بھی اپنا خلیفہ مقرر کیا تھا یعنی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کو جنت کی بشارت ہو، آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہوا اور طویل موقع ملا، اس کے بعد آپ کو امیر المؤمنین بنایا گیا تو آپ نے اپنے مضبوط ہونے کا ثبوت پیش کیا اور امانت کو ادا کیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ تم نے مجھے جنت کی جو بشارت دی ہے، اللہ کی قسم! اگر میرے پاس دنیا ومافیہا کی نعمتیں اور خزانے ہوتے تو اصل صورت حال واضح ہونے سے پہلے اپنے سامنے پیش آنے والے ہولناک واقعات و مناظر کے فدئیے میں دے دیتا اور مسلمانوں پر خلافت کا جو تم نے ذکر کیا ہے تو بخدا! میری تمنا ہے کہ برابر سرابر چھوٹ جاؤں، نہ میرا کوئی فائدہ ہو اور نہ مجھ پر کوئی وبال ہو، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم نشینی کا جو تم نے ذکر کیا ہے، وہ صحیح ہے۔