مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
0
3. مُسْنَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 390
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ ، قَالَ: بَلَغَ عُمَرَ أَنَّ سَعْدًا لَمَّا بَنَى الْقَصْرَ، قَالَ: انْقَطَعَ الصُّوَيْتُ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَةَ، فَلَمَّا قَدِمَ أَخْرَجَ زَنْدَهُ، وَأَوْرَى نَارَهُ، وَابْتَاعَ حَطَبًا بِدِرْهَمٍ، وَقِيلَ لِسَعْدٍ: إِنَّ رَجُلًا فَعَلَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ: ذَاكَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ، فَحَلَفَ بِاللَّهِ مَا قَالَهُ، فَقَالَ: نُؤَدِّي عَنْكَ الَّذِي تَقُولُهُ، وَنَفْعَلُ مَا أُمِرْنَا بِهِ، فَأَحْرَقَ الْبَابَ، ثُمَّ أَقْبَلَ يَعْرِضُ عَلَيْهِ أَنْ يُزَوِّدَهُ، فَأَبَى، فَخَرَجَ، فَقَدِمَ عَلَى عُمَرَ ، فَهَجَّرَ إِلَيْهِ، فَسَارَ ذَهَابَهُ وَرُجُوعَهُ تِسْعَ عَشْرَةَ، فَقَالَ: لَوْلَا حُسْنُ الظَّنِّ بِكَ، لَرَأَيْنَا أَنَّكَ لَمْ تُؤَدِّ عَنَّا، قَالَ: بَلَى، أَرْسَلَ يَقْرَأُ السَّلَامَ، وَيَعْتَذِرُ، وَيَحْلِفُ بِاللَّهِ مَا قَالَ: فَهَلْ زَوَّدَكَ شَيْئًا؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَمَا مَنَعَكَ أَنْ تُزَوِّدَنِي أَنْتَ؟ قَالَ: إِنِّي كَرِهْتُ أَنْ آمُرَ لَكَ، فَيَكُونَ لَكَ الْبَارِدُ، وَيَكُونَ لِي الْحَارُّ، وَحَوْلِي أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَدْ قَتَلَهُمْ الْجُوعُ، وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يَشْبَعُ الرَّجُلُ دُونَ جَارِهِ".
عبایہ بن رفاعہ کہتے ہیں کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خبر معلوم ہوئی کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنے لئے ایک محل تعمیر کروایا ہے جہاں فریادیوں کی آوازیں پہنچنا بند ہو گئی ہیں، تو انہوں نے فوراً محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا: انہوں نے وہاں پہنچ کر چقماق نکال کر اس سے آگ سلگائی، ایک درہم کی لکڑیاں خریدیں اور انہیں آگ لگا دی۔ کسی نے جا کر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ایک آدمی ایسا ایسا کر رہا ہے، انہوں نے فرمایا کہ وہ محمد بن مسلمہ ہیں، یہ کہہ کر وہ ان کے پاس آئے اور ان سے قسم کھا کر کہا کہ انہوں نے کوئی بات نہیں کہی ہے, محمد بن مسلمہ کہنے لگے کہ ہمیں تو جو حکم ملا ہے، ہم وہی کریں گے، اگر آپ نے کوئی پیغام دینا ہو تو وہ بھی پہنچا دیں گے، یہ کہہ کر انہوں نے اس محل کے دروازے کو آگ لگا دی۔ پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے انہیں زاد راہ کی پیشکش کی لیکن انہوں نے اسے بھی قبول نہ کیا اور واپس روانہ ہو گئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جس وقت وہ پہنچے وہ دوپہر کا وقت تھا اور اس آنے جانے میں ان کے کل انیس دن صرف ہوئے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: اگر آپ کے ساتھ حسن ظن نہ ہوتا تو ہم یہ سمجھتے کہ شاید آپ نے ہمارا پیغام ان تک نہیں پہنچایا۔ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں! اس کے جواب میں انہوں نے آپ کو سلام کہلوایا ہے اور معذرت کی ہے اور اللہ کی قسم کھا کر کہا ہے کہ انہوں نے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا انہوں نے آپ کو زادراہ دیا؟ عرض کیا میں نے خود ہی نہیں لیا، فرمایا: پھر اپنے ساتھ کیوں نہیں لے گئے؟ عرض کیا کہ مجھے یہ چیز اچھی نہ لگی کہ میں انہیں آپ کا کوئی حکم دوں، وہ آپ کے لئے تو ٹھنڈے رہیں اور میرے لئے گرم ہو جائیں، پھر میرے اردگرد اہل مدینہ آباد ہیں جنہیں بھوک نے مار رکھا ہے اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی شخص اپنے پڑوسی کو چھوڑ کر خود سیراب نہ ہوتا پھرے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، ورواية عباية بن رفاعة عن عمر مرسلة