(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا صفوان ، حدثنا شريح بن عبيد ، قال: قال عمر بن الخطاب :" خرجت اتعرض رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل ان اسلم، فوجدته قد سبقني إلى المسجد، فقمت خلفه، فاستفتح سورة الحاقة، فجعلت اعجب من تاليف القرآن، قال: فقلت: هذا والله شاعر كما قالت قريش، قال: فقرا: إنه لقول رسول كريم وما هو بقول شاعر قليلا ما تؤمنون سورة الحاقة آية 40 - 41، قال: قلت: كاهن، قال: ولا بقول كاهن قليلا ما تذكرون تنزيل من رب العالمين ولو تقول علينا بعض الاقاويل لاخذنا منه باليمين ثم لقطعنا منه الوتين فما منكم من احد عنه حاجزين سورة الحاقة آية 42 - 47 إلى آخر السورة، قال: فوقع الإسلام في قلبي كل موقع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ عُبَيْدٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ :" خَرَجْتُ أَتَعَرَّضُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ أُسْلِمَ، فَوَجَدْتُهُ قَدْ سَبَقَنِي إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقُمْتُ خَلْفَهُ، فَاسْتَفْتَحَ سُورَةَ الْحَاقَّةِ، فَجَعَلْتُ أَعْجَبُ مِنْ تَأْلِيفِ الْقُرْآنِ، قَالَ: فَقُلْتُ: هَذَا وَاللَّهِ شَاعِرٌ كَمَا قَالَتْ قُرَيْشٌ، قَالَ: فَقَرَأَ: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلا مَا تُؤْمِنُونَ سورة الحاقة آية 40 - 41، قَالَ: قُلْتُ: كَاهِنٌ، قَالَ: وَلا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلا مَا تَذَكَّرُونَ تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الأَقَاوِيلِ لأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ سورة الحاقة آية 42 - 47 إِلَى آخِرِ السُّورَةِ، قَالَ: فَوَقَعَ الْإِسْلَامُ فِي قَلْبِي كُلَّ مَوْقِعٍ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں قبول اسلام سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے ارادے سے نکلا لیکن پتہ چلا کہ وہ مجھ سے پہلے ہی مسجد میں جا چکے ہیں، میں جا کر ان کے پیچھے کھڑا ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ حاقہ کی تلاوت شروع کر دی، مجھے نظم قرآن اور اس کے اسلوب سے تعجب ہونے لگا، میں نے اپنے دل میں سوچا واللہ! یہ شخص شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں، اتنی دیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر پہنچ گئے کہ ”وہ تو ایک معزز قاصد کا قول ہے کسی شاعر کی بات تھوڑی ہے لیکن تم ایمان بہت کم لاتے ہو۔“ یہ سن کر میں نے اپنے دل میں سوچا یہ تو کاہن ہے، ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ”اور نہ ہی یہ کسی کاہن کا کلام ہے، تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو، یہ تو رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اگر یہ پیغمبر ہماری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے تو ہم اسے اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیں اور اس کی گردن توڑ ڈالیں اور تم میں سے کوئی ان کی طرف سے رکا وٹ نہ بن سکے۔“ یہ آیات سن کر اسلام نے میرے دل میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑنا شروع کردئیے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، شريح بن عبيد لم يدرك عمر