(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت ابا جمرة الضبعي يحدث، عن جويرية بن قدامة ، قال: حججت فاتيت المدينة العام الذي اصيب فيه عمر ، قال: فخطب، فقال:" إني رايت كان ديكا احمر نقرني نقرة او نقرتين" شعبة الشاك، فكان من امره انه طعن، فاذن للناس عليه، فكان اول من دخل عليه اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ثم اهل المدينة، ثم اهل الشام، ثم اذن لاهل العراق، فدخلت فيمن دخل، قال: فكان كلما دخل عليه قوم، اثنوا عليه وبكوا، قال: فلما دخلنا عليه، قال: وقد عصب بطنه بعمامة سوداء، والدم يسيل، قال: فقلنا: اوصنا، قال: وما ساله الوصية احد غيرنا، فقال:" عليكم بكتاب الله، فإنكم لن تضلوا ما اتبعتموه، فقلنا: اوصنا، فقال: اوصيكم بالمهاجرين، فإن الناس سيكثرون ويقلون، واوصيكم بالانصار، فإنهم شعب الإسلام الذي لجئ إليه، واوصيكم بالاعراب، فإنهم اصلكم ومادتكم، واوصيكم باهل ذمتكم، فإنهم عهد نبيكم ورزق عيالكم، قوموا عني"، قال: فما زادنا على هؤلاء الكلمات، قال محمد بن جعفر: قال شعبة: ثم سالته بعد ذلك، فقال في الاعراب: واوصيكم بالاعراب، فإنهم إخوانكم، وعدو عدوكم.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جَمْرَةَ الضُّبَعِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ جُوَيْرِيَةَ بْنِ قُدَامَةَ ، قَالَ: حَجَجْتُ فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ الْعَامَ الَّذِي أُصِيبَ فِيهِ عُمَرُ ، قَالَ: فَخَطَبَ، فَقَالَ:" إِنِّي رَأَيْتُ كَأَنَّ دِيكًا أَحْمَرَ نَقَرَنِي نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ" شُعْبَةُ الشَّاكُّ، فَكَانَ مِنْ أَمْرِهِ أَنَّهُ طُعِنَ، فَأُذِنَ لِلنَّاسِ عَلَيْهِ، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ أَهْلُ الشَّامِ، ثُمَّ أُذِنَ لِأَهْلِ الْعِرَاقِ، فَدَخَلْتُ فِيمَنْ دَخَلَ، قَالَ: فَكَانَ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهِ قَوْمٌ، أَثْنَوْا عَلَيْهِ وَبَكَوْا، قَالَ: فَلَمَّا دَخَلْنَا عَلَيْهِ، قَالَ: وَقَدْ عَصَبَ بَطْنَهُ بِعِمَامَةٍ سَوْدَاءَ، وَالدَّمُ يَسِيلُ، قَالَ: فَقُلْنَا: أَوْصِنَا، قَالَ: وَمَا سَأَلَهُ الْوَصِيَّةَ أَحَدٌ غَيْرُنَا، فَقَالَ:" عَلَيْكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنَّكُمْ لَنْ تَضِلُّوا مَا اتَّبَعْتُمُوهُ، فَقُلْنَا: أَوْصِنَا، فَقَالَ: أُوصِيكُمْ بِالْمُهَاجِرِينَ، فَإِنَّ النَّاسَ سَيَكْثُرُونَ وَيَقِلُّونَ، وَأُوصِيكُمْ بِالْأَنْصَارِ، فَإِنَّهُمْ شَعْبُ الْإِسْلَامِ الَّذِي لَجِئَ إِلَيْهِ، وَأُوصِيكُمْ بِالْأَعْرَابِ، فَإِنَّهُمْ أَصْلُكُمْ وَمَادَّتُكُمْ، وَأُوصِيكُمْ بِأَهْلِ ذِمَّتِكُمْ، فَإِنَّهُمْ عَهْدُ نَبِيِّكُمْ وَرِزْقُ عِيَالِكُمْ، قُومُوا عَنِّي"، قَالَ: فَمَا زَادَنَا عَلَى هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ: قَالَ شُعْبَةُ: ثُمَّ سَأَلْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ فِي الْأَعْرَابِ: وَأُوصِيكُمْ بِالْأَعْرَابِ، فَإِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ، وَعَدُوُّ عَدُوِّكُمْ.
جویریہ بن قدامہ کہتے ہیں کہ جس سال سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے، مجھے اس سال حج کی سعادت نصیب ہوئی، میں مدینہ منورہ بھی حاضر ہوا، وہاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک سرخ رنگ کا مرغا مجھے ایک یا دو مرتبہ ٹھونگ مارتا ہے اور ایسا ہی ہوا تھا کہ قاتلانہ حملے میں ان پر نیزے کے زخم آئے تھے۔ بہرحال! لوگوں کو ان کے پاس آنے کی اجازت دی گئی تو سب سے پہلے ان کے پاس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تشریف لائے، پھر عام اہل مدینہ، پھر اہل شام اور پھر اہل عراق، اہل عراق کے ساتھ داخل ہونے والوں میں میں بھی شامل تھا، جب بھی لوگوں کی کوئی جماعت ان کے پاس جاتی تو ان کی تعریف کرتی اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے۔ جب ہم ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ان کے پیٹ کو سفید عمامے سے باندھ دیا گیا ہے لیکن اس میں سے خون کا سیل رواں جاری ہے، ہم نے ان سے وصیت کی درخواست کی جو کہ اس سے قبل ہمارے علاوہ کسی اور نے نہ کی تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کتاب اللہ کو لازم پکڑو، کیونکہ جب تک تم اس کی اتباع کرتے رہو گے، ہرگز گمراہ نہ ہو گے، ہم نے مزید وصیت کی درخواست کی تو فرمایا: میں تمہیں مہاجرین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ لوگ تو کم اور زیادہ ہوتے ہی رہتے ہیں، انصار کے ساتھ بھی حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ اسلام کا قلعہ ہیں جہاں اہل اسلام نے آکر پناہ لی تھی، نیز دیہاتیوں سے کیونکہ وہ تمہاری اصل اور تمہارا مادہ ہیں، نیز ذمیوں سے بھی حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ وہ تمہارے نبی کی ذمہ داری میں ہیں (ان سے معاہدہ کر رکھا ہے) اور تمہارے اہل و عیال کا رزق ہیں۔ اب جاؤ، اس سے زائد بات انہوں نے کوئی ارشاد نہیں فرمائی، البتہ راوی نے ایک دوسرے موقع پر دیہاتیوں سے متعلق جملے میں اس بات کا بھی اضافہ کیا کہ وہ تمہارے بھائی اور تمہارے دشمن کے دشمن ہیں۔