(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا ابن جريج ، اخبرني سليمان بن عتيق ، عن عبد الله بن بابيه ، عن بعض بني يعلى ، عن يعلى بن امية ، قال: طفت مع عمر بن الخطاب ، فاستلم الركن، قال يعلى: فكنت مما يلي البيت، فلما بلغت الركن الغربي الذي يلي الاسود، جررت بيده ليستلم، فقال:" ما شانك؟ فقلت: الا تستلم؟ قال: الم تطف مع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقلت: بلى، فقال: افرايته يستلم هذين الركنين الغربيين؟ قال: فقلت لا، قال: افليس لك فيه اسوة حسنة؟ قال: قلت: بلى، قال: فانفذ عنك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ عَتِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ ، عَنْ بَعْضِ بَنِي يَعْلَى ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ ، قَالَ: طُفْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ، قَالَ يَعْلَى: فَكُنْتُ مِمَّا يَلِي الْبَيْتَ، فَلَمَّا بَلَغْتُ الرُّكْنَ الْغَرْبِيَّ الَّذِي يَلِي الْأَسْوَدَ، جَرَرْتُ بِيَدِهِ لِيَسْتَلِمَ، فَقَالَ:" مَا شَأْنُكَ؟ فَقُلْتُ: أَلَا تَسْتَلِمُ؟ قَالَ: أَلَمْ تَطُفْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقُلْتُ: بَلَى، فَقَالَ: أَفَرَأَيْتَهُ يَسْتَلِمُ هَذَيْنِ الرُّكْنَيْنِ الْغَرْبِيَّيْنِ؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَا، قَالَ: أَفَلَيْسَ لَكَ فِيهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَانْفُذْ عَنْكَ".
سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ طواف کیا، انہوں نے حجر اسود کا استلام کیا، جب میں رکن یمانی پر پہنچا تو میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا تاکہ وہ استلام کر لیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا کیا آپ استلام نہیں کریں گے؟ انہوں نے فرمایا: کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی طواف نہیں کیا؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں! فرمایا: تو کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ میں نے کہا نہیں! انہوں نے فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لئے اسوہ حسنہ موجود نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں، انہوں نے فرمایا: پھر اسے چھوڑ دو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وجهالة بعض بني يعلى لا تضر، فقد روي عبدالله بن بابيه هذا الحديث عن يعلى بن أمية دون واسطة