(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا عبد الله بن المبارك ، عن معمر ، عن الزهري ، عن السائب بن يزيد ، عن عبد الله بن السعدي ، قال: قال لي عمر : الم احدث انك تلي من اعمال الناس اعمالا، فإذا اعطيت العمالة لم تقبلها؟ قال: نعم، قال: فما تريد إلى ذاك؟ قال: انا غني، لي اعبد ولي افراس، اريد ان يكون عملي صدقة على المسلمين، قال: لا تفعل، فإني كنت افعل مثل الذي تفعل، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطيني العطاء، فاقول: اعطه من هو افقر إليه مني، فقال:" خذه، فإما ان تموله، وإما ان تصدق به، وما آتاك الله من هذا المال، وانت غير مشرف له ولا سائله فخذه، وما لا، فلا تتبعه نفسك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّعْدِيِّ ، قَالَ: قَالَ لِي عُمَرُ : أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّكَ تَلِي مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا، فَإِذَا أُعْطِيتَ الْعُمَالَةَ لَمْ تَقْبَلْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا تُرِيدُ إِلَى ذَاكَ؟ قَالَ: أَنَا غَنِيٌّ، لِي أَعْبُدٌ وَلِي أَفْرَاسٌ، أُرِيدُ أَنْ يَكُونَ عَمَلِي صَدَقَةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: لَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي كُنْتُ أَفْعَلُ مِثْلَ الَّذِي تَفْعَلُ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ، فَأَقُولُ: أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ:" خُذْهُ، فَإِمَّا أَنْ تَمَوَّلَهُ، وَإِمَّا أَنْ تَصَدَّقَ بِهِ، وَمَا آتَاكَ اللَّهُ مِنْ هَذَا الْمَالِ، وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ لَهُ وَلَا سَائِلِهِ فَخُذْهُ، وَمَا لَا، فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ".
ایک مرتبہ عبداللہ بن سعدی رحمہ اللہ خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: کیا تم وہی ہو جس کے متعلق مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ تمہیں عوام الناس کی کوئی ذمہ داری سونپی گئی ہے لیکن جب تہیں اس کی تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اسے لینے سے ناگواری کا اظہار کرتے ہو؟ عبداللہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا جی ہاں! ایسا ہی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس سے تمہارا کیا مقصد ہے؟ میں نے عرض کیا: میرے پاس اللہ کے فضل سے گھوڑے اور غلام سب ہی کچھ ہے اور میں مالی اعتبار سے بھی صحیح ہوں، اس لئے میری خواہش ہوتی ہے کہ میری تنخواہ مسلمانوں کے ہی کاموں میں استعمال ہو جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایسا مت کرو، کیونکہ ایک مرتبہ میں نے بھی یہی چاہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ دینا چاہتے تو میں عرض کر دیتا کہ یا رسول اللہ! مجھ سے زیادہ جو محتاج لوگ ہیں، یہ انہیں دے دیجئے، اسی طرح ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ مال و دولت عطاء فرمایا، میں نے حسب سابق یہی عرض کیا کہ مجھ سے زیادہ کسی ضرورت مند کو دے دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے لے لو اپنے مال میں اضافہ کرو، اس کے بعد صدقہ کردو اور یاد رکھو! اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے لے لیا کرو، ورنہ اس کے پیچھے نہ پڑا کرو۔“