(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، وحجاج ، قالا: حدثنا شعبة ، عن سعد بن إبراهيم ، قال: سمعت عبيد الله بن عبد الله بن عتبة يحدث، عن ابن عباس ، عن عبد الرحمن بن عوف ، قال: حج عمر بن الخطاب ، فاراد ان يخطب الناس خطبة، فقال عبد الرحمن بن عوف: إنه قد اجتمع عندك رعاع الناس، فاخر ذلك حتى تاتي المدينة. فلما قدم المدينة دنوت منه قريبا من المنبر، فسمعته يقول:" وإن ناسا يقولون: ما بال الرجم، وإنما في كتاب الله الجلد؟ وقد رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجمنا بعده، ولولا ان يقولوا: اثبت في كتاب الله ما ليس فيه، لاثبتها كما انزلت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، قَالَ: حَجَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، فَأَرَادَ أَنْ يَخْطُبَ النَّاسَ خُطْبَةً، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: إِنَّهُ قَدْ اجْتَمَعَ عِنْدَكَ رَعَاعُ النَّاسِ، فَأَخِّرْ ذَلِكَ حَتَّى تَأْتِيَ الْمَدِينَةَ. فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ دَنَوْتُ مِنْهُ قَرِيبًا مِنَ الْمِنْبَرِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:" وَإِنَّ نَاسًا يَقُولُونَ: مَا بَالُ الرَّجْمِ، وَإِنَّمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ الْجَلْدُ؟ وَقَدْ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ، وَلَوْلَا أَنْ يَقُولُوا: أَثْبَتَ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا لَيْسَ فِيهِ، لَأَثْبَتُّهَا كَمَا أُنْزِلَتْ".
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لے گئے، وہاں انہوں نے مخصوص حالات کے تناظر میں کوئی خطبہ دینا چاہا، لیکن سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ اس وقت تو لوگوں کا کمزور طبقہ بہت بڑی مقدار میں موجود ہے، آپ اپنے اس خطبہ کو مدینہ منورہ واپسی تک مؤخر کر دیں (کیونکہ وہاں کے لوگ سمجھدار ہیں، وہ آپ کی بات سمجھ لیں گے، یہ لوگ بات کو صحیح طرح سمجھ نہ سکیں گے اور شورش بپا کر دیں گے۔) چنانچہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ واپس آ گئے تو ایک دن میں منبر کے قریب گیا، میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ بعض لوگ کہتے ہیں رجم کی کیا حیثیت ہے؟ کتاب اللہ میں تو صرف کوڑوں کی سزا ذکر کی گئی ہے؟ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کی سزا جاری فرمائی ہے اور ان کے بعد ہم نے بھی، اور اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے کتاب اللہ میں اس چیز کا اضافہ کر دیا جو اس میں نہیں ہے تو میں اس حکم والی آیت کو قرآن کریم (کے حاشیے) پر لکھ دیتا۔