مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
0
3. مُسْنَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 273
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ:" بِمَ أَهْلَلْتَ؟" قُلْتُ: بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" هَلْ سُقْتَ مِنْ هَدْيٍ؟" قُلْتُ: لَا، قَالَ:" طُفْ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حِلَّ"، فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَوْمِي فَمَشَّطَتْنِي، وَغَسَلَتْ رَأْسِي، فَكُنْتُ أُفْتِي النَّاسَ بِذَلِكَ بِإِمَارَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَإِمَارَةِ عُمَرَ، فَإِنِّي لَقَائِمٌ فِي الْمَوْسِمِ إِذْ جَاءَنِي رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ، فَقُلْتُ: أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ فُتْيَا، فَهَذَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ، فَبِهِ فَأْتَمُّوا، فَلَمَّا قَدِمَ قُلْتُ: مَا هَذَا الَّذِي قَدْ أَحْدَثْتَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ؟ قَالَ: إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَالَ: وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ سورة البقرة آية 196، وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ.
سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں جب یمن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطحاء میں تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے احرام کی حالت میں دیکھ کر پوچھا کہ کس نیت سے احرام باندھا؟ میں نے عرض کیا یہ نیت کر کے کہ جس نیت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا ہو، میرا بھی وہی احرام ہے، پھر پوچھا کہ قربانی کا جانور ساتھ لائے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں! فرمایا کہ پھر خانہ کعبہ کا طواف کر کے صفا مروہ کے درمیان سعی کرو اور حلال ہو جاؤ۔ چنانچہ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا، صفا مروہ کے درمیان سعی کی، پھر اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے میرے سر کے بالوں میں کنگھی کی اور میرا سر پانی سے دھویا، بعد میں لوگوں کو بھی حضرات شیخین رضی اللہ عنہم کے دور خلافت میں یہی مسئلہ بتاتا رہا، ایک دن ایام حج میں، میں کسی جگہ کھڑا ہوا تھا کہ ایک آدمی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ نہیں جانتے، امیر المؤمنین نے حج کے معاملات میں کیا نئے احکام جاری کئے ہیں؟ اس پر میں نے کہا: لوگو! ہم نے جسے بھی کوئی فتویٰ دیا ہو، وہ سن لے، یہ امیر المؤمنین موجود ہیں، ان ہی کی اقتداء کرو، جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے ان سے پوچھا کہ مناسک حج میں آپ نے یہ کیا نیا حکم جاری کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر ہم قرآن کریم کو لیتے ہیں تو وہ ہمیں اتمام حج و عمرہ کا حکم دیتا ہے اور اگر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لیتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے حلال نہیں ہوئے۔ (فائدہ: دراصل سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں کو جمع کرنے کی ممانعت کی تھی، یہاں اسی کا ذکر ہے۔)
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1559، م: 1221