مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
0
3. مُسْنَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 89
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ الْغَطَفَانِيِّ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيِّ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ ذَكَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رُؤْيَا لَا أُرَاهَا إِلَّا لِحُضُورِ أَجَلِي، رَأَيْتُ كَأَنَّ دِيكًا نَقَرَنِي نَقْرَتَيْنِ، قَالَ: وَذُكَرَ لِي أَنَّهُ دِيكٌ أَحْمَرُ، فَقَصَصْتُهَا عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ امْرَأَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقَالَتْ: يَقْتُلُكَ رَجُلٌ مِنَ الْعَجَمِ، قَالَ: وَإِنَّ النَّاسَ يَأْمُرُونَنِي أَنْ أَسْتَخْلِفَ، وَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُنْ لِيُضَيِّعَ دِينَهُ، وَخِلَافَتَهُ الَّتِي بَعَثَ بِهَا نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ يَعْجَلْ بِي أَمْرٌ فَإِنَّ الشُّورَى فِي هَؤُلَاءِ السِّتَّةِ الَّذِينَ مَاتَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، فَمَنْ بَايَعْتُمْ مِنْهُمْ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا، وَإِنِّي أَعْلَمُ أَنَّ أُنَاسًا سَيَطْعَنُونَ فِي هَذَا الْأَمْرِ، أَنَا قَاتَلْتُهُمْ بِيَدِي هَذِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ، أُولَئِكَ أَعْدَاءُ اللَّهِ الْكُفَّارُ الضُّلَّالُ، وَايْمُ اللَّهِ، مَا أَتْرُكُ فِيمَا عَهِدَ إِلَيَّ رَبِّي فَاسْتَخْلَفَنِي شَيْئًا أَهَمَّ إِلَيَّ مِنَ الْكَلَالَةِ، وَايْمُ اللَّهِ، مَا أَغْلَظَ لِي نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ مُنْذُ صَحِبْتُهُ أَشَدَّ مَا أَغْلَظَ لِي فِي شَأْنِ الْكَلَالَةِ، حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ:" تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ، الَّتِي نَزَلَتْ فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ، وَإِنِّي إِنْ أَعِشْ فَسَأَقْضِي فِيهَا بِقَضَاءٍ يَعْلَمُهُ مَنْ يَقْرَأُ وَمَنْ لَا يَقْرَأُ" وَإِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى أُمَرَاءِ الْأَمْصَارِ، إِنِّي إِنَّمَا بَعَثْتُهُمْ لِيُعَلِّمُوا النَّاسَ دِينَهُمْ، وَيُبَيِّنُوا لَهُمْ سُنَّةَ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَرْفَعُوا إِلَيَّ مَا عُمِّيَ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ تَأْكُلُونَ مِنْ شَجَرَتَيْنِ لَا أُرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ: هَذَا الثُّومُ وَالْبَصَلُ، وَايْمُ اللَّهِ،" لَقَدْ كُنْتُ أَرَى نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجِدُ رِيحَهُمَا مِنَ الرَّجُلِ، فَيَأْمُرُ بِهِ فَيُؤْخَذُ بِيَدِهِ، فَيُخْرَجُ بِهِ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتَّى يُؤْتَى بِهِ الْبَقِيعَ"، فَمَنْ أَكَلَهُمَا لَا بُدَّ، فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا. قَالَ: فَخَطَبَ النَّاسَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَأُصِيبَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ.
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لئے تشریف لائے، اللہ کی حمد و ثناء بیان کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کی، پھر فرمانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آ گیا ہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری ہے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہ مرغ سرخ رنگ کا تھا، میں نے یہ خواب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا تو انہوں نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ آپ کو ایک عجمی شخص شہید کر دے گا۔ پھر فرمایا کہ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقرر کر دوں، اتنی بات تو طے ہے کہ اللہ نہ اپنے دین کو ضائع کرے گا اور نہ ہی اس خلافت کو جس کے ساتھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا تھا، اب اگر میرا فیصلہ جلد ہو گیا تو میں مجلس شوریٰ ان چھ افراد کی مقرر کر رہا ہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت رحلت راضی ہو کر تشریف لے گئے تھے، جب تم ان میں سے کسی ایک کی بیعت کر لو تو ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ مسئلہ خلافت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، بخدا! میں اپنے ان ہاتھوں سے اسلام کی مدافعت میں ان لوگوں سے قتال کر چکا ہوں، یہ لوگ اللہ کے دشمن، کافر اور گمراہ ہیں، اللہ کی قسم! میں نے اپنے پیچھے کلالہ سے زیادہ اہم مسئلہ کوئی نہیں چھوڑا جس کا مجھ سے میرے رب نے وعدہ کیا ہو اور اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرنے کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی مسئلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ناراض ہوئے ہوں، سوائے کلالہ کے مسئلہ کے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی سخت ناراض ہوئے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا کہ تمہارے لئے اس مسئلے میں سورت نساء کی وہ آخری آیت ”جو گرمی میں نازل ہوئی تھی“ کافی ہے۔ اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلہ کا ایساحل نکال کر جاؤں گا کہ اس آیت کو پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے سب ہی کے علم میں وہ حل آ جائے، اور میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے مختلف شہروں میں جو امراء اور گورنر بھیجے ہیں وہ صرف اس لئے کہ لوگوں کو دین سکھائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں لوگوں کے سامنے بیان کریں اور میرے سامنے ان کے وہ مسائل پیش کریں جن کا ان کے پاس کوئی حل نہ ہو۔ لوگو! تم دو ایسے درختوں میں سے کھاتے ہو جنہیں میں گندہ سمجھتاہوں ایک لہسن اور دوسرا پیاز (کچا کھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے) بخدا! میں نے دیکھا ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور یہی نہیں بلکہ اس کو جنت البقیع تک پہنچا کر لوگ واپس آتے، اگر کوئی شخص انہیں کھانا ہی چاہتا ہے تو پکا کر ان کی بو مار دے۔ راوی کہتے ہیں کہ جمعہ کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا اور بدھ کو آپ پر قاتلانہ حملہ ہو گیا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 567