مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
0
3. مُسْنَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 90
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: خَرَجْتُ أَنَا وَالزُّبَيْرُ، والْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ إِلَى أَمْوَالِنَا بِخَيْبَرَ نَتَعَاهَدُهَا، فَلَمَّا قَدِمْنَاهَا تَفَرَّقْنَا فِي أَمْوَالِنَا، قَالَ: فَعُدِيَ عَلَيَّ تَحْتَ اللَّيْلِ، وَأَنَا نَائِمٌ عَلَى فِرَاشِي، فَفُدِعَتْ يَدَايَ مِنْ مِرْفَقِي، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ اسْتُصْرِخَ عَلَيَّ صَاحِبَايَ، فَأَتَيَانِي، فَسَأَلَانِي عَمَّنْ صَنَعَ هَذَا بِكَ؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي، قَالَ: فَأَصْلَحَا مِنْ يَدَيَّ، ثُمَّ قَدِمُوا بِي عَلَى عُمَرَ ، فَقَالَ: هَذَا عَمَلُ يَهُودَ، ثُمَّ قَامَ فِي النَّاسِ خَطِيبًا، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَامَلَ يَهُودَ خَيْبَرَ عَلَى أَنَّا نُخْرِجُهُمْ إِذَا شِئْنَا، وَقَدْ عَدَوْا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَفَدَعُوا يَدَيْهِ كَمَا بَلَغَكُمْ، مَعَ عَدْوَتِهِمْ عَلَى الْأَنْصَارِ قَبْلَهُ، لَا نَشُكُّ أَنَّهُمْ أَصْحَابُهُمْ، لَيْسَ لَنَا هُنَاكَ عَدُوٌّ غَيْرَهُمْ، فَمَنْ كَانَ لَهُ مَالٌ بِخَيْبَرَ فَلْيَلْحَقْ بِهِ، فَإِنِّي مُخْرِجٌ يَهُودَ، فَأَخْرَجَهُمْ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے ساتھ خیبر میں اپنے اپنے مال کی دیکھ بھال کے سلسلے میں گیا ہوا تھا، جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو ہر ایک اپنی اپنی زمین کی طرف چلا گیا، میں رات کے وقت اپنے بستر پر سو رہا تھا کہ مجھ پر کسی نے حملہ کر دیا، میرے دونوں ہاتھ اپنی کہنیوں سے ہل گئے، جب صبح ہوئی میرے دونوں ساتھیوں کو اس حادثے کی خبر دی گئی، وہ آئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ یہ کس نے کیا ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے کچھ خبر نہیں ہے۔ انہوں نے میرے ہاتھ کی ہڈی کو صحیح جگہ پر بٹھایا اور مجھے لے کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے، انہوں نے فرمایا: یہ یہودیوں کی ہی کارستانی ہے، اس کے بعد وہ لوگوں کے سامنے خطاب کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: لوگو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کے ساتھ معاملہ اس شرط پر کیا تھا کہ ہم جب انہیں چاہیں گے، نکال سکیں گے، اب انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پر حملہ کیا ہے اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ انہوں نے اس کے ہاتھوں کے جوڑ ہلا دئیے ہیں، جب کہ اس سے قبل وہ ایک انصاری کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ کر چکے ہیں، ہمیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان ہی کے ساتھی ہیں، ہمارا ان کے علاوہ یہاں کوئی دشمن نہیں ہے، اس لئے خیبر میں جس شخص کا بھی کوئی مال موجود ہو، وہ وہاں چلاجائے کیونکہ اب میں یہودیوں کو وہاں سے نکالنے والا ہوں، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں خیبر سے بےدخل کر کے نکال دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن، خ: 2730