(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن ابي رافع : ان عمر بن الخطاب كان مستندا إلى ابن عباس، وعنده ابن عمر، وسعيد بن زيد:" اعلموا اني لم اقل في الكلالة شيئا، ولم استخلف من بعدي احدا، وانه من ادرك وفاتي من سبي العرب، فهو حر من مال الله عز وجل، فقال سعيد بن زيد: اما إنك لو اشرت برجل من المسلمين، لاتمنك الناس، وقد فعل ذلك ابو بكر واتمنه الناس. فقال عمر: قد رايت من اصحابي حرصا سيئا، وإني جاعل هذا الامر إلى هؤلاء النفر الستة الذين مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، ثم قال عمر: لو ادركني احد رجلين، ثم جعلت هذا الامر إليه، لوثقت به سالم مولى ابي حذيفة، وابو عبيدة بن الجراح".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ مُسْتَنِدًا إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، وعنده ابن عمر، وسعيد بن زيد:" اعْلَمُوا أَنِّي لَمْ أَقُلْ فِي الْكَلَالَةِ شَيْئًا، وَلَمْ أَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِي أَحَدًا، وَأَنَّهُ مَنْ أَدْرَكَ وَفَاتِي مِنْ سَبْيِ الْعَرَبِ، فَهُوَ حُرٌّ مِنْ مَالِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ: أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَشَرْتَ بِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، لَأْتَمَنَكَ النَّاسُ، وَقَدْ فَعَلَ ذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ وَأْتَمَنَهُ النَّاسُ. فَقَالَ عُمَرُ: قَدْ رَأَيْتُ مِنْ أَصْحَابِي حِرْصًا سَيِّئًا، وَإِنِّي جَاعِلٌ هَذَا الْأَمْرَ إِلَى هَؤُلَاءِ النَّفَرِ السِّتَّةِ الَّذِينَ مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: لَوْ أَدْرَكَنِي أَحَدُ رَجُلَيْنِ، ثُمَّ جَعَلْتُ هَذَا الْأَمْرَ إِلَيْهِ، لَوَثِقْتُ بِهِ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ".
سیدنا ابورافع کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری ایام میں ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اور سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، آپ نے فرمایا کہ یہ بات آپ کے علم میں ہونی چاہیے کہ میں نے کلالہ کے حوالے سے کوئی قول اختیار نہیں کیا اور نہ ہی اپنے بعد کسی کو بطور خلیفہ کے نامزد کیا ہے اور یہ کہ میری وفات کے بعد عرب کے جتنے قیدی ہیں، سب اللہ کی راہ میں آزاد ہوں گے۔ سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اگر آپ کسی مسلمان کے متعلق خلیفہ ہونے کا مشورہ ہی دے دیں تو لوگ آپ پر اعتماد کریں گے جیسا کہ اس سے قبل سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور لوگوں نے ان پر بھی اعتماد کیا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا: دراصل مجھے اپنے ساتھیوں میں ایک بری لالچ دکھائی دے رہی ہے، اس لئے میں ایسا تو نہیں کرتا، البتہ ان چھ آدمیوں پر اس بوجھ کو ڈال دیتا ہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت وفات دنیا سے راضی ہو کر گئے تھے، ان میں سے جسے چاہو، خلیفہ منتخب کرلو۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر دو میں سے کوئی ایک آدمی بھی موجود ہوتا اور میں خلافت اس کے حوالے کر دیتا تو مجھے اطمینان رہتا، ایک سالم جو کہ ابوحذیفہ کے غلام تھے اور دوسرے سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف على بن زيد وهو ابن جدعان