(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا الهيثم بن رافع الطاطري بصري ، حدثني ابو يحيى ، رجل من اهل مكة، عن فروخ مولى عثمان: ان عمر، وهو يومئذ امير المؤمنين خرج إلى المسجد، فراى طعاما منثورا، فقال: ما هذا الطعام؟ فقالوا: طعام جلب إلينا، قال: بارك الله فيه وفيمن جلبه، قيل: يا امير المؤمنين، فإنه قد احتكر، قال: ومن احتكره؟ قالوا: فروخ مولى عثمان، وفلان مولى عمر، فارسل إليهما، فدعاهما، فقال: ما حملكما على احتكار طعام المسلمين؟ قالا: يا امير المؤمنين، نشتري باموالنا ونبيع، فقال عمر : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من احتكر على المسلمين طعامهم، ضربه الله بالإفلاس، او بجذام". فقال فروخ عند ذلك: يا امير المؤمنين، اعاهد الله واعاهدك، ان لا اعود في طعام ابدا، واما مولى عمر، فقال: إنما نشتري باموالنا ونبيع. قال ابو يحيى: فلقد رايت مولى عمر مجذوما.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ رَافِعٍ الطَّاطَرِيُّ بَصْرِيٌّ ، حَدَّثَنِي أَبُو يَحْيَى ، رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، عَنْ فَرُّوخَ مَوْلَى عُثْمَانَ: أَنَّ عُمَرَ، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ خَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَرَأَى طَعَامًا مَنْثُورًا، فَقَالَ: مَا هَذَا الطَّعَامُ؟ فَقَالُوا: طَعَامٌ جُلِبَ إِلَيْنَا، قَالَ: بَارَكَ اللَّهُ فِيهِ وَفِيمَنْ جَلَبَهُ، قِيلَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَإِنَّهُ قَدْ احْتُكِرَ، قَالَ: وَمَنْ احْتَكَرَهُ؟ قَالُوا: فَرُّوخُ مَوْلَى عُثْمَانَ، وَفُلَانٌ مَوْلَى عُمَرَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا، فَدَعَاهُمَا، فَقَالَ: مَا حَمَلَكُمَا عَلَى احْتِكَارِ طَعَامِ الْمُسْلِمِينَ؟ قَالَا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، نَشْتَرِي بِأَمْوَالِنَا وَنَبِيعُ، فَقَالَ عُمَرُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ احْتَكَرَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ طَعَامَهُمْ، ضَرَبَهُ اللَّهُ بِالْإِفْلَاسِ، أَوْ بِجُذَامٍ". فَقَالَ فَرُّوخُ عِنْدَ ذَلِكَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أُعَاهِدُ اللَّهَ وَأُعَاهِدُكَ، أَنْ لَا أَعُودَ فِي طَعَامٍ أَبَدًا، وَأَمَّا مَوْلَى عُمَرَ، فَقَالَ: إِنَّمَا نَشْتَرِي بِأَمْوَالِنَا وَنَبِيعُ. قَالَ أَبُو يَحْيَى: فَلَقَدْ رَأَيْتُ مَوْلَى عُمَرَ مَجْذُومًا.
فروخ کہتے ہیں کہ ایک دن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں مسجد جانے کے لئے گھر سے نکلے، راستے میں انہیں جگہ جگہ غلہ نظر آیا، انہوں نے پوچھا: یہ غلہ کیسا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ درآمد کیا گیا ہے، فرمایا: اللہ اس میں برکت دے اور اس شخص کو بھی جس نے اسے درآمد کیا ہے، لوگوں نے کہا: اے امیر المؤمنین! یہ تو ذخیرہ اندوزی کا مال ہے، پوچھا: کس نے ذخیرہ کر کے رکھا ہوا تھا؟ لوگوں نے بتایا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے غلام فروخ اور آپ کے فلاں غلام نے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو بلاوا بھیجا اور فرمایا کہ تم نے مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کیوں کی؟ انہوں نے عرض کیا کہ امیر المؤمنین! ہم اپنے پیسوں سے خریدتے اور بیچتے ہیں (اس لئے ہمیں اپنی مملوکہ چیز پر اختیار ہے، جب مرضی بیچیں) فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے تنگدستی اور کوڑھ کے مرض میں مبتلا کر دیتا ہے۔ فروخ نے تو یہ سن کر اسی وقت کہا: امیر المؤمنین! میں اللہ سے اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا، لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا غلام اپنی اسی بات پر اڑا رہا کہ ہم اپنے پیسوں سے خریدتے اور بیچتے ہیں (اس لئے ہمیں اختیار ہونا چاہیے)۔ ابویحییٰ کہتے ہیں کہ بعد میں جب میں نے اسے دیکھا تو وہ کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہوچکا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى يحيى المكي وفروخ مولي عثمان