مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
0
3. مُسْنَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 375
حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنِ ابْنِ يَعْمَرَ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، أَوْ: سَأَلَهُ رَجُلٌ: إِنَّا نَسِيرُ فِي هَذِهِ الْأَرْضِ فَنَلْقَى قَوْمًا يَقُولُونَ: لَا قَدَرَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : إِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مِنْهُمْ بَرِيءٌ، وَهُمْ مِنْهُ بُرَآءُ، قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَدْنُو؟ فَقَالَ:" ادْنُهْ، فَدَنَا رَتْوَةً، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَدْنُو؟ فَقَالَ: ادْنُهْ، فَدَنَا رَتْوَةً، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَدْنُو؟ فَقَالَ: ادْنُهْ، فَدَنَا رَتْوَةً"، حَتَّى كَادَتْ أَنْ تَمَسَّ رُكْبَتَاهُ رُكْبَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْإِيمَانُ؟ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا کہ ہم لوگ دنیا میں مختلف جگہوں کے سفر پر آتے جاتے رہتے ہیں، ہماری ملاقات بعض ان لوگوں سے بھی ہوتی ہے جو تقدیر کے منکر ہوتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤ تو ان سے کہہ دینا کہ ابن عمر تم سے بری ہے اور تم اس سے بری ہو، یہ بات تین مرتبہ کہہ کر انہوں نے یہ روایت سنائی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، پھر انہوں نے اس کا حلیہ بیان کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اسے قریب ہونے کے لئے کہا: چنانچہ وہ اتنا قریب ہوا کہ اس کے گھٹنے نبی صلی اللہ علیہ کے گھٹنوں سے چھونے لگے، اس نے کہا: یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح كسابقه