(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا عمر بن الوليد الشني ، عن عبد الله بن بريدة ، قال: جلس عمر مجلسا، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجلسه تمر عليه الجنائز، قال:" فمروا بجنازة، فاثنوا خيرا، فقال: وجبت، ثم مروا بجنازة، فاثنوا خيرا، فقال: وجبت، ثم مروا بجنازة، فقالوا خيرا، فقال: وجبت، ثم مروا بجنازة، فقالوا: هذا كان اكذب الناس، فقال: إن اكذب الناس اكذبهم على الله، ثم الذين يلونهم، من كذب على روحه في جسده، قال: قالوا: ارايت إذا شهد اربعة؟ قال: وجبت، قالوا: وثلاثة؟ قال: وجبت، قالوا: واثنين؟ قال: وجبت، ولان اكون قلت واحدا احب إلي من حمر النعم، قال: فقيل لعمر: هذا شيء تقوله برايك، ام شيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: لا، بل سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْوَلِيدِ الشَّنِّيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، قَالَ: جَلَسَ عُمَرُ مَجْلِسًا، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُهُ تَمُرُّ عَلَيْهِ الْجَنَائِزُ، قَالَ:" فَمَرُّوا بِجِنَازَةٍ، فَأَثْنَوْا خَيْرًا، فَقَالَ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مَرُّوا بِجِنَازَةٍ، فَأَثْنَوْا خَيْرًا، فَقَالَ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مَرُّوا بِجِنَازَةٍ، فَقَالُوا خَيْرًا، فَقَالَ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مَرُّوا بِجِنَازَةٍ، فَقَالُوا: هَذَا كَانَ أَكْذَبَ النَّاسِ، فَقَالَ: إِنَّ أَكْذَبَ النَّاسِ أَكْذَبُهُمْ عَلَى اللَّهِ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، مَنْ كَذَبَ عَلَى رُوحِهِ فِي جَسَدِهِ، قَالَ: قَالُوا: أَرَأَيْتَ إِذَا شَهِدَ أَرْبَعَةٌ؟ قَالَ: وَجَبَتْ، قَالُوا: وَثَلَاثَةٌ؟ قَالَ: وَجَبَتْ، قَالُوا: وَاثْنَيْنِ؟ قَالَ: وَجَبَتْ، وَلَأَنْ أَكُونَ قُلْتُ وَاحِدًا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، قَالَ: فَقِيلَ لِعُمَرَ: هَذَا شَيْءٌ تَقُولُهُ بِرَأْيِكَ، أَمْ شَيْءٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لَا، بَلْ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن بریدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس جگہ بیٹھے ہوئے تھے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیٹھتے تھے اور وہاں سے جنازے گزر تے تھے، وہاں سے ایک جنازہ کا گزر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: واجب ہو گئی، پھر دوسرا جنازہ گزر ا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا: واجب ہو گئی، تیسرے جنازہ پر بھی ایسا ہی ہوا، جب چوتھا جنازہ گزر ا تو لوگوں نے کہا: یہ سب سے بڑا جھوٹا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں میں سب سے بڑا جھوٹا وہ ہوتا ہے جو اللہ پر سب سے زیادہ جھوٹ باندھتا ہے، اس کے بعد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے جسم میں موجود روح پر جھوٹ باندھتے ہیں، لوگوں نے کہا: یہ بتائیے کہ اگر کسی مسلمان کے لئے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا: اس کے لئے جنت واجب ہو گئی، لوگوں نے عرض کیا: اگر تین آدمی ہوں؟ تو فرمایا: تب بھی یہی حکم ہے، ہم نے دو کے متعلق پوچھا، فرمایا: دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے، اگر میں ایک کے متعلق پوچھ لیتا تو یہ میرے نزدیک سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ پسندیدہ تھا، کسی شخص نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ بات آپ اپنی رائے سے کہہ رہے ہیں یا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، بلکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2643، عبدالله بن بريدة لم يدرك عمر، بينهما أبو الأسود الدؤلي كما تقدم برقم: 139 بإسناد صحيح