(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، انبانا الجريري سعيد ، عن ابي نضرة ، عن ابي فراس ، قال: خطب عمر بن الخطاب ، فقال:" يا ايها الناس، الا إنا إنما كنا نعرفكم إذ بين ظهرينا النبي صلى الله عليه وسلم، وإذ ينزل الوحي، وإذ ينبئنا الله من اخباركم، الا وإن النبي صلى الله عليه وسلم قد انطلق، وقد انقطع الوحي، وإنما نعرفكم بما نقول لكم، من اظهر منكم خيرا، ظننا به خيرا واحببناه عليه، ومن اظهر منكم لنا شرا، ظننا به شرا، وابغضناه عليه، سرائركم بينكم وبين ربكم، الا إنه قد اتى علي حين وانا احسب ان من قرا القرآن يريد الله وما عنده، فقد خيل إلي بآخرة، الا إن رجالا قد قرءوه يريدون به ما عند الناس، فاريدوا الله بقراءتكم، واريدوه باعمالكم، الا إني والله ما ارسل عمالي إليكم ليضربوا ابشاركم، ولا لياخذوا اموالكم، ولكن ارسلهم إليكم ليعلموكم دينكم وسنتكم، فمن فعل به شيء سوى ذلك، فليرفعه إلي، فوالذي نفسي بيده، إذن لاقصنه منه، فوثب عمرو بن العاص، فقال: يا امير المؤمنين، اورايت إن كان رجل من المسلمين على رعية، فادب بعض رعيته، ائنك لمقتصه منه؟ قال: إي والذي نفس عمر بيده، إذن لاقصنه منه، وقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقص من نفسه؟ الا لا تضربوا المسلمين فتذلوهم، ولا تجمروهم فتفتنوهم، ولا تمنعوهم حقوقهم فتكفروهم، ولا تنزلوهم الغياض فتضيعوهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَنْبَأَنَا الْجُرَيْرِيُّ سَعِيدٌ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي فِرَاسٍ ، قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّا إِنَّمَا كُنَّا نَعْرِفُكُمْ إِذْ بَيْنَ ظَهْرَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِذْ يَنْزِلُ الْوَحْيُ، وَإِذْ يُنْبِئُنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ، أَلَا وَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ انْطَلَقَ، وَقَدْ انْقَطَعَ الْوَحْيُ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُكُمْ بِمَا نَقُولُ لَكُمْ، مَنْ أَظْهَرَ مِنْكُمْ خَيْرًا، ظَنَنَّا بِهِ خَيْرًا وَأَحْبَبْنَاهُ عَلَيْهِ، وَمَنْ أَظْهَرَ مِنْكُمْ لَنَا شَرًّا، ظَنَنَّا بِهِ شَرًّا، وَأَبْغَضْنَاهُ عَلَيْهِ، سَرَائِرُكُمْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رَبِّكُمْ، أَلَا إِنَّهُ قَدْ أَتَى عَلَيَّ حِينٌ وَأَنَا أَحْسِبُ أَنَّ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ يُرِيدُ اللَّهَ وَمَا عِنْدَهُ، فَقَدْ خُيِّلَ إِلَيَّ بِآخِرَةٍ، أَلَا إِنَّ رِجَالًا قَدْ قَرَءُوهُ يُرِيدُونَ بِهِ مَا عِنْدَ النَّاسِ، فَأَرِيدُوا اللَّهَ بِقِرَاءَتِكُمْ، وَأَرِيدُوهُ بِأَعْمَالِكُمْ، أَلَا إِنِّي وَاللَّهِ مَا أُرْسِلُ عُمَّالِي إِلَيْكُمْ لِيَضْرِبُوا أَبْشَارَكُمْ، وَلَا لِيَأْخُذُوا أَمْوَالَكُمْ، وَلَكِنْ أُرْسِلُهُمْ إِلَيْكُمْ لِيُعَلِّمُوكُمْ دِينَكُمْ وَسُنَّتَكُمْ، فَمَنْ فُعِلَ بِهِ شَيْءٌ سِوَى ذَلِكَ، فَلْيَرْفَعْهُ إِلَيَّ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِذَنْ لَأُقِصَّنَّهُ مِنْهُ، فَوَثَبَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَوَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى رَعِيَّةٍ، فَأَدَّبَ بَعْضَ رَعِيَّتِهِ، أَئِنَّكَ لَمُقْتَصُّهُ مِنْهُ؟ قَالَ: إِي وَالَّذِي نَفْسُ عُمَرَ بِيَدِهِ، إِذَنْ لَأُقِصَّنَّهُ مِنْهُ، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقِصُّ مِنْ نَفْسِهِ؟ أَلَا لَا تَضْرِبُوا الْمُسْلِمِينَ فَتُذِلُّوهُمْ، وَلَا تُجَمِّرُوهُمْ فَتَفْتِنُوهُمْ، وَلَا تَمْنَعُوهُمْ حُقُوقَهُمْ فَتُكَفِّرُوهُمْ، وَلَا تُنْزِلُوهُمْ الْغِيَاضَ فَتُضَيِّعُوهُمْ".
ابوفراس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: لوگو! جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود رہے، وحی نازل ہوتی رہی اور اللہ ہمیں تمہارے حالات سے مطلع کرتا رہا اس وقت تک تو ہم تمہیں پہچانتے تھے، اب چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے ہیں اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے اب ہم تمہیں ان چیزوں سے پہچانیں گے جو ہم تمہیں کہیں گے۔ تم میں سے جو شخص خیر ظاہر کرے گا ہم اس کے متعلق اچھا گمان رکھیں گے اور اس سے محبت کریں گے اور جو شر ظاہر کرے گا ہم اس کے متعلق اچھا گمان نہیں رکھیں گے اور اس بناء پر اس سے نفرت کریں گے، تمہارے پوشیدہ راز تمہارے رب اور تمہارے درمیان ہوں گے۔ یاد رکھو! مجھ پر ایک وقت ایسا بھی آیا ہے کہ جس میں، میں سمجھتا ہوں جو شخص قرآن کریم کو اللہ اور اس کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہے وہ میرے سامنے آخرت کا تخیل پیش کرتا ہے، یاد رکھو! بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو قرآن کریم کی تلاوت سے لوگوں کے مال و دولت کا حصول چاہتے ہیں، تم اپنی قرأت سے اللہ کو حاصل کرو اپنے اعمال کے ذریعے اللہ کو حاصل کرو اور یاد رکھو! میں نے تمہارے پاس اپنے مقرر کردہ گورنروں کو اس لئے نہیں بھیجا کہ وہ تمہاری چمڑی ادھیڑ دیں اور تمہارے مال و دولت پر قبضہ کر لیں، میں نے تو انہیں تمہارے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ وہ تمہیں تمہارا دین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں سکھائیں۔ جس شخص کے ساتھ اس کے علاوہ کوئی اور معاملہ ہوا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اسے میرے سامنے پیش کرے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، میں اسے بدلہ ضرور لے کر دوں گا، یہ سن کر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کود کر سامنے آئے اور کہنے لگے امیر المؤمنین! اگر کسی آدمی کو رعایا پر ذمہ دار بنایا جائے اور وہ رعایا کو ادب سکھانے کے لئے کوئی سزا دے دے، تو کیا آپ اس سے بھی قصاص لیں گے؟ فرمایا: ہاں! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے میں اس سے بھی قصاص لوں گا، میں نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف سے قصاص دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ یاد رکھو! مسلمانوں کو مار پیٹ کر ذلیل مت کرو، انہیں انگاروں پر مت رکھو کہ انہیں آزمائش میں مبتلا کر دو، ان سے ان کے حقوق مت روکو کہ انہیں کفر اختیار کرنے پر مجبور کر دو اور انہیں غصہ مت دلاؤ کہ انہیں ضائع کر دو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى فراس، وهو النهدي، والشطر الأول من الحديث فى البخاري: 2641 مختصراً