مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
0
3. مُسْنَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 316
(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فِي أُنَاسٍ مِنْ قَوْمِي، فَجَعَلَ يَفْرِضُ لِلرَّجُلِ مِنْ طَيِّئٍ فِي أَلْفَيْنِ وَيُعْرِضُ عَنِّي، قَالَ: فَاسْتَقْبَلْتُهُ، فَأَعْرَضَ عَنِّي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ مِنْ حِيَالِ وَجْهِهِ، فَأَعْرَضَ عَنِّي، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَتَعْرِفُنِي؟ قَالَ: فَضَحِكَ حَتَّى اسْتَلْقَى لِقَفَاهُ، ثُمَّ قَالَ:" نَعَمْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُكَ، آمَنْتَ إِذْ كَفَرُوا، وَأَقْبَلْتَ إِذْ أَدْبَرُوا، وَوَفَيْتَ إِذْ غَدَرُوا، وَإِنَّ أَوَّلَ صَدَقَةٍ بَيَّضَتْ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُجُوهَ أَصْحَابِهِ صَدَقَةُ طَيِّئٍ، جِئْتَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، ثُمَّ أَخَذَ يَعْتَذِرُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا فَرَضْتُ لِقَوْمٍ أَجْحَفَتْ بِهِمْ الْفَاقَةُ، وَهُمْ سَادَةُ عَشَائِرِهِمْ، لِمَا يَنُوبُهُمْ مِنَ الْحُقُوقِ.
سیدنا عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں اپنی قوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، انہوں نے بنو طئی کے ایک آدمی کو دو ہزار دئیے لیکن مجھ سے اعراض کیا، میں ان کے سامنے آیا تب بھی انہوں نے اعراض کیا، میں ان کے چہرے کے رخ کی جانب سے آیا لیکن انہوں نے پھر بھی اعراض کیا، یہ دیکھ کر میں نے کہا امیرالمومنین! آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہنسنے لگے، پھر چت لیٹ گئے اور فرمایا: ہاں! اللہ کی قسم! میں آپ کو جانتا ہوں، جب یہ کافر تھے آپ نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا، جب انہوں نے پیٹھ پھیر رکھی تھی آپ متوجہ ہو گئے تھے، جب انہوں نے عہد شکنی کی تھی تب آپ نے وعدہ وفا کیا تھا اور سب سے پہلا وہ مال صدقہ جسے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے چہرے کھل اٹھے تھے بنو طئی کی طرف سے آنے والا وہ مال تھا جو آپ ہی لے کر آئے تھے۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان سے معذرت کرتے ہوئے فرمانے لگے میں نے ان لوگوں کو مال دیا ہے جنہیں فقر و فاقہ اور تنگدستی نے کمزور کر رکھا ہے اور یہ لوگ اپنے اپنے قبیلے کے سردار ہیں، کیونکہ ان پر حقوق کی نیاب کی ذمہ داری ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، خ: 1605