انا ابو جعفر، عن هارون بن سعد، قال: لقي الخيف بن السحق حبيس بن دلجة، في اهل الشام بالربذة، فقاتلهم فهزمهم، ثم دخل المدينة، فلقي ابن عمر، فقال: يا ابن عمر، ما يبطئ بك عن ابن الزبير، الم يكن اخاك قديما، فإن الناس قد ابطئوا عنه لإبطائك؟ فقال: ابن الزبير وضع يده في قفه، وهل تدري ما قفه؟ قال: لا، قال: الم تر المراة ترضع ولدها حتى إذا روي او شبع، سلخ فوضع يده في فيه، قالت امه: قفه، وإني والله لاكونن مثل الحمل الرداح، قال: وهل تدري ما الحمل الرداح؟ قال: لا، قال: هو البعير يخلو فيبرك ولا يبرح مبركه حتى ينحر فيه، فإني مثل ذلك الحمل الزم بيتي حتى ما ياتيني من ينحرني فيه، او يجتمع الناس على رجل، فإن اجتمعوا على كثب في صالح جماعتهم فإن اقترفوا لم اجامعهم على فرقتهم، ولا اعمل على رجلين بعد الذي سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من رجل استرعاه الله رعية، إلا ساله الله عنها يوم القيامة، اقام الله فيهم ام اضاعه، حتى إن الرجل ليسال عن اهله، اقام امر الله فيهم ام اضاعه".أنا أَبُو جَعْفَرٍ، عَنْ هَارُونَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: لَقِيَ الْخَيْفُ بْنُ السَّحَقِ حُبَيْسَ بْنَ دُلْجَةَ، فِي أَهْلِ الشَّامِ بِالرَّبَذَةِ، فَقَاتَلَهُمْ فَهَزَمَهُمْ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَدِينَةَ، فَلَقِيَ ابْنَ عُمَرَ، فَقَالَ: يَا ابْنَ عُمَرَ، مَا يُبْطِئُ بكَ عَنِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، أَلَمْ يَكُنْ أَخَاكَ قَدِيمًا، فَإِنَّ النَّاسَ قَدْ أَبْطَئُوا عَنْهُ لإِبْطَائِكَ؟ فَقَالَ: ابْنُ الزُّبَيْرِ وَضَعَ يَدَهُ فِي قِفِّهِ، وَهَلْ تَدْرِي مَا قِفُّهُ؟ قَالَ: لا، قَالَ: أَلَمْ تَرَ الْمَرْأَةَ تُرْضِعُ وَلَدَهَا حَتَّى إِذَا رَوِيَ أَوْ شَبِعَ، سَلَخَ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي فِيهِ، قَالَتْ أُمُّهُ: قِفِّهِ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لأَكُونَنَّ مِثْلَ الْحَمَلِ الرَّدَاحِ، قَالَ: وَهَلْ تَدْرِي مَا الْحَمَلُ الرَّدَاحُ؟ قَالَ: لا، قَالَ: هُوَ الْبَعِيرُ يَخْلُو فَيَبْرُكُ وَلا يَبْرَحُ مَبْرَكَهُ حَتَّى يُنْحَرَ فِيهِ، فَإِنِّي مِثْلُ ذَلِكَ الْحَمَلِ أَلْزَمُ بَيْتِيَ حَتَّى مَا يَأْتِينِي مَنْ يَنْحَرُنِي فِيهِ، أَوْ يَجْتَمِعُ النَّاسُ عَلَى رَجُلٍ، فَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَى كَثَبٍ فِي صَالِحِ جَمَاعَتِهِمْ فَإِنِ اقْتَرَفُوا لَمْ أُجَامِعْهُمْ عَلَى فُرْقَتِهِمْ، وَلا أَعْمَلُ عَلَى رَجُلَيْنِ بَعْدَ الَّذِي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ رَجُلٍ اسْتَرْعَاهُ اللَّهُ رَعِيَّةً، إِلا سَأَلَهُ اللَّهُ عَنْهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أَقَامَ اللَّهُ فِيهِمْ أَمْ أَضَاعَهُ، حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيُسْأَلُ عَنْ أَهْلِهِ، أَقَامَ أَمْرَ اللَّهِ فِيهِمْ أَمْ أَضَاعَهُ".
ہارون بن سعد نے بیان کیا کہ حنیف بن سجق ربذہ مقام پر اہل شام کے ابن دلجہ کے لشکر سے مڈبھیڑ ہوا، ان سے جنگ کی اور انہیں شکست دے دی۔ پھر حنیف مدینے میں داخل ہوا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ملا اور کہا:اے ابن عمررضی اللہ عنہما! کون سی چیز آپ کو ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے پیچھے رکھتی ہے، کیا آپ ان کے پرانے زمانے سے بھائی نہیں ہیں، یقینا لوگ آپ کی تاخیر کی وجہ سے، ان سے پیچھے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ اور تحقیق اس نے اپنا ہاتھ اپنے منہ میں رکھا اور کہا، کیا تو جانتا ہے کہ اس کے منہ میں ہاتھ رکھنے کا مطلب کیا ہے؟ کہا کہ نہیں فرمایا کہ کیا تم نے عورت کو نہیں دیکھا جو اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے، یہاں تک کہ جب وہ سیراب ہوجاتا ہے یا سیر ہوجاتا ہے تو بے مزہ ہوجاتا ہے اور اپنا ہاتھ اپنے منہ میں رکھ لیتا ہے تو اس کی ماں کہتی ہے کہ میں نے ہاتھ منہ میں رکھ لیا ہے اور بے شک میں اللہ کی قسم! میں ضرور بھار ی وزن والے اونٹ کی طرح ہو جاؤں گا اور کیا تم جانتے ہو کہ بھاری وزن والا اونٹ کیا ہے؟ کہا کہ نہیں: فرمایا: وہ اونٹ ہے جو علیحدہ ہوجاتا ہے اور بیٹھ جاتا ہے اور ہمیشہ اپنی اسی بیٹھنے کی جگہ پر رہتا ہے، یہاں تک کہ وہاں ذبح کردیا جاتا ہے تو میں بھی اس اونٹ کی مثل ہوں۔ میں اپنے گھر کو لازم کر لوں گا، یہاں تک کہ میرے پاس وہ آئے جو مجھے اس میں ذبح کر دے یا لوگ ایک آدمی پر اکٹھے ہوجائیں۔ اگر انہوں نے اپنی نیک جماعتوں میں قرب پر اکٹھ کرلیا (تو درست)اور اگر وہ افتراق و انتشار کریں گے تو میں ان کے افتراق میں ان کے ساتھ اکٹھانہیں ہوں گا اور نہ میں دو آدمیوں پر عمل (بیعت)کروں گا، اس کے بعد کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو کوئی بھی آدمی کہ جسے اللہ نے کسی رعیت کی نگرانی سونپی تو قیامت والے دن اس سے اس کے بارے ضرور سوال کرے گا، آیا ان میں اللہ کا حکم قائم کیا یا اسے ضائع کر دیا، یہاں تک کہ بے شک آدمی سے اس کے گھر والوں کے متعلق پوچھا جائے گا کہ ان میں اللہ کا حکم قائم کیا یا اسے ضائع کر دیا۔“
تخریج الحدیث: «مجمع الزوائد: 207/5، فتح الباري: 113/13۔»