عن المبارك بن فضالة، عن الحسن، حدثني انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يخطب يوم الجمعة، ويسند ظهره إلى خشبة، فلما كثر الناس، قال:" ابنوا لي منبرا"، فبنوا له منبرا، إنما كان عسر، فتحول من الخشبة إلى المنبر، قال: فحنت والله الخشبة حنين الوالد، قال انس: وانا والله في المسجد اسمع ذلك، قال: فوالله ما زالت تحن حتى نزل النبي صلى الله عليه وسلم من المنبر، فمشى إليها فاحتضنها فسكتت فيها الحسرة، وقال:" يا معشر المسلمين، الخشب يحن إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، افليس الذين يرجون لقاءه احق ان يشتاقوا إليه؟!".عَنِ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَيُسْنِدُ ظَهْرَهُ إِلَى خَشَبَةٍ، فَلَمَّا كَثُرَ النَّاسُ، قَالَ:" ابْنُوا لِي مِنْبَرًا"، فَبَنَوْا لَهُ مِنْبَرًا، إِنَّمَا كَانَ عُسْرٌ، فَتَحَوَّلَ مِنَ الْخَشَبَةِ إِلَى الْمِنْبَرِ، قَالَ: فَحَنَّتْ وَاللَّهِ الْخَشَبَةُ حَنِينَ الْوَالِدِ، قَالَ أَنَسٌ: وَأَنَا وَاللَّهِ فِي الْمَسْجِدِ أَسْمَعُ ذَلِكَ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا زَالَتْ تَحِنُّ حَتَّى نَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمِنْبَرِ، فَمَشَى إِلَيْهَا فَاحْتَضَنَهَا فَسَكَتَتْ فِيهَا الْحَسْرَةُ، وَقَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، الْخَشَبُ يَحِنُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَفَلَيْسَ الَّذِينَ يَرْجُونَ لِقَاءَهُ أَحَقَّ أَنْ يَشْتَاقُوا إِلَيْهِ؟!".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعے والے دن خطبہ ارشاد فرماتے اور اپنی پشت کی ایک لکڑی کے ساتھ ٹیک لگاتے، جب لوگ زیادہ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے منبر بناؤ۔“ تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے منبر بنایا۔ وہ محض تنگ دستی کا زمانہ تھا، سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکڑی سے منبر کی طرف منتقل ہوگئے، فرمایا: ”پس وہ رونے لگی، اللہ کی قسم! وہ لکڑی، والد کے رونے کی طرح رونے لگی۔“ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اور میں اللہ کی قسم! مسجد میں تھا، اس کا (رونا(سن رہا تھا، کہا کہ اللہ کی قسم! وہ لگاتار روتی رہی، یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے، اس کی طرف چل کر گئے،اسے سینے سے لگایا تو وہ خاموش ہو گئی، اور اس میں حسرت تھی (حسن رحمہ اللہ)نے کہا: اے مسلمانوں کی جماعت! لکڑی کا تنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رو رہا ہے، تو کیا وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کی امید رکھتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشتیاق کے زیادہ حق دار نہیں ہیں؟
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 361، مسند دارمي المقدمة: 1/25 (42)، تاریخ بغداد: 11/161، 12/486، مجمع الزوائد، هیثمي: 12/182، طبراني کبیر: 2/182، طبقات ابن سعد: 1/251، مسند أحمد: 13363۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»