نا هشام بن سعد، عن قيس بن بشر التغلبي، قال: كان ابي جليسا لابي الدرداء بدمشق، وكان بدمشق رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم من الانصار، يقال له: ابن الحنظلية، وكان رجلا متوحدا قلما يجالس الناس، إنما هو في صلاة، فإذا انصرف فإنما هو يسبح ويكبر ويهلل حتى ياتي اهله، فمر بنا يوما ونحن عند ابي الدرداء فسلم، فقال له ابو الدرداء: كلمة تنفعنا ولا تضرك؟ فقال: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنكم قادمون على إخوانكم، فاصلحوا لباسكم، واصلحوا رحالكم حتى تكونوا شامة في الناس، إن الله لا يحب الفحش والتفحش".نا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ بِشْرٍ التَّغْلِبِيِّ، قَالَ: كَانَ أَبِي جَلِيسًا لأَبِي الدَّرْدَاءِ بِدِمِشْقَ، وَكَانَ بِدِمِشْقَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الأَنْصَارِ، يُقَالُ لَهُ: ابْنُ الْحَنْظَلِيَّةِ، وَكَانَ رَجُلا مُتَوَحِّدًا قَلَّمَا يُجَالِسُ النَّاسَ، إِنَّمَا هُوَ فِي صَلاةٍ، فَإِذَا انْصَرَفَ فَإِنَّمَا هُوَ يُسَبِّحُ وَيُكَبِّرُ وَيُهَلِّلُ حَتَّى يَأْتِيَ أَهْلَهُ، فَمَرَّ بِنَا يَوْمًا وَنَحْنُ عِنْدَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ: كَلِمَةً تَنْفَعُنَا وَلا تَضُرُّكَ؟ فَقَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ قَادِمُونَ عَلَى إِخْوَانِكُمْ، فَأَصْلِحُوا لِبَاسَكُمْ، وَأَصْلِحُوا رِحَالَكُمْ حَتَّى تَكُونُوا شَامَةً فِي النَّاسِ، إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَالتَّفَحُّشَ".
قیس بن بشر تغلبی نے کہا کہ میرا باپ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کا دمشق میں ہم نشین تھا اور دمشق میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک آدمی تھا، جسے ابن حنظلیہ رحمہ اللہ کہا جاتا تھا،وہ تنہائی پسند تھے اور کم ہی لوگوں کے ساتھ مجلس اختیار کیا کرتے تھے، وہ صرف نماز میں ہوتے، جب نماز سے پھرتے تو (ان کا کام(بس سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر کہنا ہوتا، یہاں تک کہ اپنے گھر والوں کے پاس آجاتے، ایک دن وہ ہمارے پاس سے گزرے اور ہم ابو درداء رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، انہوں نے سلام کیا تو ان سے ابودردا رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمیں کوئی بات بتائیں جو ہمیں فائدہ دے اور آپ رضی اللہ عنہ کو نقصان نہ دے۔ کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک تم اپنے بھائیوں پر آنے والے ہو، سو تم اپنے لباس درست رکھو اور اپنی سواریاں درست رکھو، یہاں تک کہ ایسے ہو جاؤ جیسے لوگوں میں بہت نمایاں ہو، بے شک اللہ بے حیائی کو اور بہ تکلف فحاشی کو پسند نہیں کرتا۔“
تخریج الحدیث: «مستدرك حاکم: 2/91، 4/183، سنن أبي داؤد: 11/146 (4089)، مسند احمد: 4/180، الزهد، ابن مبارك: 292۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»