انا عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، حدثني رزيق مولى بني فزارة، عن مسلم بن قرظة، وكان ابن عم عوف بن مالك، قال: سمعت عوف بن مالك، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " خيار ائمتكم من تحبونهم ويحبونكم، وتصلون عليهم ويصلون عليكم، وشرار ائمتكم الذين تبغضونهم، ويبغضونكم، وتلعنونهم، ويلعنونكم"، قال: قلنا: يا رسول الله، افلا ننابذهم عند ذلك؟ قال:" لا، ما اقاموا الصلاة، الا ومن ولي عليه وال فرآه ياتي شيئا من معصية الله، فليكره ما ياتي من معصية الله، ولا ينزعن يدا من طاعة".أنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي رُزَيْقٌ مَوْلَى بَنِي فَزَارَةَ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ قَرَظَةَ، وَكَانَ ابْنَ عَمِّ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " خِيَارُ أَئِمَّتِكُمْ مَنْ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ، وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ، وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ، وَيُبْغِضُونَكُمْ، وَتَلْعَنُونَهُمْ، وَيَلْعَنُونَكُمْ"، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلا نُنَابِذُهُمْ عِنْدَ ذَلِكَ؟ قَالَ:" لا، مَا أَقَامُوا الصَّلاةَ، أَلا وَمَنْ وُلِّيَ عَلَيْهِ وَالٍ فَرَآهُ يَأْتِي شَيْئًا مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، فَلْيَكْرَهْ مَا يَأْتِي مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلا يَنْزِعَنَّ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ".
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تمہارے بہترین حکمران وہی ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں اور تم ان کے لیے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے دعا کرتے ہیں اور تمہارے برے حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرتے ہو اور وہ تم سے نفرت کرتے ہیں، تم ان پر لعنت کرتے ہو اور وہ تم پر لعنت کرتے ہیں۔ کہا کہ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو کیا ہم اس وقت ان کے ساتھ اعلان جنگ نہ کر دیں؟ فرمایا: نہیں، جب تک وہ نماز کو قائم رکھیں، مگر وہ شخص کے اس کے اوپر ایسا حکمران بنا کہ اس نے اس کو دیکھا کہ وہ اللہ کی نافرمانی میں سے کسی چیز کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اس اللہ کی معصیت کو جس کا وہ ارتکاب کرتا ہے، ناپسند کرے اور اطاعت سے قطعاً ہاتھ نہ کھینچے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1855، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4589، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2839، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16720، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24614، 24633، والبزار فى «مسنده» برقم: 2752، والطبراني فى «الكبير» برقم: 115، 116، 117 صحیح مسلم، الإمارة: 12/244، 245، رقم: 65، 66، سنن دارمي: 2/232۔»