كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 38. بَابُ: مَا يَقْطَعُ الصَّلاَةَ باب: کس چیز کے نمازی کے سامنے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مقام عرفہ میں نماز پڑھا رہے تھے، میں اور فضل ایک گدھی پر سوار ہو کر صف کے کچھ حصے کے سامنے سے گزرے، پھر ہم سواری سے اترے اور گدھی کو چھوڑ دیا، پھر ہم صف میں شامل ہو گئے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 18 (76)، الصلاة 90 (493)، الأذان 161 (861)، جزاء الصید 25 (1857)، المغازي 77 (4412)، صحیح مسلم/الصلاة 47 (504)، سنن ابی داود/الصلاة 113 (715)، سنن الترمذی/الصلاة 136 (337)، سنن النسائی/القبلة 7 (753)، (تحفة الأشراف: 18293)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/قصر الصلاة 11 (38)، مسند احمد (1/219، 264، 337، 365)، سنن الدارمی/الصلاة 129 (1455) (صحیح)» (صحیح بخاری میں «بمنى» بدل «بعرفة» ہے، اور وہی محفوظ ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: 709)
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حجرہ میں نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں آپ کے سامنے سے عبداللہ یا عمر بن ابی سلمہ گزرے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کیا وہ لوٹ گئے، پھر زینب بنت ام سلمہ گزریں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اسی طرح اشارہ کیا مگر وہ سامنے سے گزرتی چلی گئیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے، تو فرمایا: ”یہ عورتیں نہیں مانتیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18293، ومصباح الزجاجة: 341)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/294) (ضعیف)» (سند میں قیس والد محمد مجہول ہیں، اور بعض نسخوں میں «عن أمہ» آیا ہے، اور امام مزی نے «عن امہ» کو معتمد مانا ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی اپنی جہالت اور نافہمی کی وجہ سے مردوں پر غالب آ جاتی ہیں۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کالا کتا اور بالغ عورت نماز کو توڑ دیتے ہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 110 (703)، سنن النسائی/القبلة 7 (752)، (تحفة الأشراف: 5379)، مسند احمد (1/347) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جب نمازی کے سامنے سے گزریں اور سترہ نہ ہو، یہ حدیث صحیح ہے، اس کا نسخ مخالفین جس حدیث سے بیان کرتے ہیں وہ ضعیف ہے، اور منسوخ ہونا قرین قیاس بھی نہیں ہے، اس لئے کہ یہ صحیح حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، اور انہوں نے بہت آخر زمانہ میں کم سنی میں نبی اکرم ﷺ سے حدیثیں سنی ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت، کتے اور گدھے کا گزرنا نماز کو توڑ دیتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12929، ومصباح الزجاجة: 342)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/425، 299) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت، کتے اور گدھے کا گزرنا نماز کو توڑ دیتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9654، ومصباح الزجاجة: 343)، مسند احمد (4/86، 5/57) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نمازی کے آگے کجاوہ کی لکڑی کے مثل کوئی چیز نہ ہو تو اس کی نماز عورت، گدھے اور کتے کے گزرنے سے ٹوٹ جاتی ہے“ ۱؎۔ عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کالے کتے کی تخصیص کی کیا وجہ ہے؟ اگر لال کتا ہو تو؟ انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا تھا جو تم نے مجھ سے کیا ہے تو آپ نے فرمایا: ”کالا کتا شیطان ہے“ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 50 (510)، سنن ابی داود/الصلاة 110 (702)، سنن الترمذی/الصلاة 137 (338)، سنن النسائی/القبلة 7 (751)، (تحفة الأشراف: 11939)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/49 1، 151، 155، 160، 161)، سنن الدارمی/الصلاة 128 (1454) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جمہور نے ان روایتوں کی تاویل کی ہے کہ نماز ٹوٹنے سے مراد توجہ بٹ جانے کی وجہ سے نماز میں نقص اور خلل کا پیدا ہونا ہے نہ کہ نماز کا فی الواقع ٹوٹ جانا ہے، اوپر کے حواشی میں اہل علم کی آرا ء کا ذکر آ گیا ہے، جن علماء نے ان تینوں کے گزرنے سے نماز کے باطل ہونے کی بات کہی ہے، ان میں شیخ الإسلام ابن تیمیہ، ابن القیم، ابن قدامہ اور ظاہر یہ ہیں، ان کے یہاں وہ روایات جن میں نماز کے نہ دہرانے کی بات ہے، وہ عام احادیث ہیں، جن میں سے مذکورہ تین چیزوں کو استثناء حاصل ہے، تو اب سابقہ حدیث عام مخصوص ہو گی اور ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث پر عمل ہو گا۔ ۲؎: یعنی شیطان کتے کی صورت اختیار کر کے نماز توڑنے کے لئے آتا ہے، یا خود کالا کتا شیطان ہوتا ہے، یعنی شریر اور منحوس ہوتا ہے، غرض نماز کا اس سے ٹوٹ جانا حکم شرعی ہے اس میں قیاس کو دخل نہیں، اور تعجب ہے کہ حنفیہ ایک ضعیف حدیث سے قہقہہ کو ناقص وضو جانتے ہیں، اور قیاس کو ترک کرتے ہیں اور یہاں صحیح حدیث کو قیاس کے خلاف نہیں مانتے، بعض لوگوں نے اسے حقیقت پر محمول کیاہے اور کہا ہے کہ شیطان کالے کتے کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کالا کتا دوسرے کتوں کے مقابل زیادہ ضرر رساں ہوتا ہے اس لیے اسے شیطان کہا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|