سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
Establishing the Prayer and the Sunnah Regarding Them
173. . بَابُ: مَا جَاءَ فِي قِيامِ شَهْرِ رَمَضَانَ
باب: ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان۔
Chapter: What was narrated concerning Qiyam (the voluntary night Prayers) during the month of Ramadan
حدیث نمبر: 1326
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا محمد بن بشر ، عن محمد بن عمرو ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من صام رمضان، وقامه إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اور (اس کی راتوں میں) قیام کیا، تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15091)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الإیمان 28 (37)، لیلة القدر 1 (2014)، صحیح مسلم/المسافرین 25 (759)، سنن ابی داود/الصلاة 318 (1371)، سنن الترمذی/الصوم 1 (683)، سنن النسائی/الصیام 3 (6104)، موطا امام مالک/الصلاة في رمضان 1 (2)، مسند احمد (2/232، 241، 385، 473، 503)، سنن الدارمی/الصوم 54 (1817) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: رمضان میں رات کو عبادت کرنا سنت ہے خواہ اخیر رات میں کرے یا شروع رات میں، اور اس کا وقت نماز عشاء کے بعد سے نماز فجر تک ہے، اور قیام رمضان تہجد پڑھنے سے ادا ہو جاتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ تراویح ہی پڑھے، تہجد کی طرح آٹھ رکعتیں تراویح کی ادا کرے، نبی کریم ﷺ سے یہی ثابت ہے۔ لیکن جو شخص آخری رات میں تہجد پڑھتا ہو یا پڑھ سکتا ہو تو اس کے حق میں یہی زیادہ افضل و بہتر ہے کہ وہ آخری رات میں پڑھے، اور اگر پہلے نماز تراویح با جماعت پڑھنی ہو، اور آخری رات میں آدمی تنہا ہو، تو باجماعت نماز اس کے لئے افضل اور زیادہ بہتر ہے اس لئے کہ باجماعت پڑھنے والے کو پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔ بیس رکعت کی مروجہ تراویح پر عوام کی محافظت نے صحیح احادیث سے ثابت گیارہ رکعت تراویح کو ترک کر دیا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ: ۱- نبی اکرم ﷺ نے (۱۱) رکعت سے زیادہ نماز تراویح نہیں ادا فرمائی، اور عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو سنت صحیحہ کے مطابق لوگوں کو (۱۱) رکعت تراویح ہی پڑھانے کا حکم دیا تھا، واضح رہے کہ عہد فاروقی میں رمضان میں لوگوں کے بیس رکعت تراویح پڑھنے کی روایت شاذ اور ضعیف ہے، اور ثقہ راویوں کی اس روایت کے خلاف ہے کہ یہ (۱۱) رکعات تھیں، اور ان کے پڑھانے کا حکم عمر رضی اللہ عنہ نے دیا تھا، شاذ روایت (یعنی ثقہ راوی کی روایت جس کی ثقات نے مخالفت کی ہو) اگر صحیح بھی ہو جائے تو ثقات یا زیادہ ثقہ راوی کی صحیح اور محفوظ روایت کو لینا، اور اس پر عمل کرنا اولی اور بہتر ہے، کیونکہ یہ عدد میں سنت نبویہ کے مطابق ہے، نیز اس میں یہ بھی نہیں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بیس رکعت پڑھانے کا حکم دیا تھا، بلکہ لوگوں کا فعل تھا جو اس صحیح روایت کے خلاف تھا جس میں (۱۱) رکعت تراویح پڑھانے کا حکم موجود ہے، اگر یہ فعل عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح اور ثابت بھی ہوتا تو اس پر عمل اور مطابق سنت صحیح روایت پر عمل نہ کرنا ایسا امر نہیں تھا کہ عامل بالحدیث جماعت مسلمین کے گروہ سے خارج ہو جائے جیسا کہ تعصب اور جہالت کے شکار لوگ تصور کرتے ہیں، بلکہ زیادہ سے زیادہ جو بات سمجھی جا سکتی ہے وہ بیس رکعات کے جواز کی ہے، لیکن یہ بات قطعی طور سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس فعل کو کیا، اور جس پر مواظبت فرمائی وہ افضل ہے، اور وہ (۱۱) رکعت ہے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ ﷺ کی رمضان کی نماز کے بارے میں استفسار کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نماز (تراویح و تہجد) نہیں پڑھتے تھے، چار رکعتیں تو ایسی ادا فرماتے کہ جس کے طول اور حسن کے متعلق کچھ نہ پوچھو، پھر چار رکعتیں مزید پڑھتے اس کے طول وحسن کو نہ پوچھو، پھر تین رکعتیں ادا فرماتے (صحیح بخاری، و صحیح مسلم)۔ ان رکعات میں کمی بھی ممکن ہے، حتی کہ صرف ایک رکعت ہی پڑھ لے تو ایسا کر سکتا ہے، اس پر رسول اکرم ﷺ کی قولی اور فعلی دونوں حدیثیں دلیل ہیں، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے استفسار کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کتنی رکعت وتر ادا فرماتے تھے؟ تو آپ نے فرمایا کہ چار رکعتیں پڑھ کر تین وتر پڑھتے، اور چھ رکعتیں پڑھ کر تین وتر پڑھتے، اور دس رکعتیں پڑھ کر تین وتر پڑھتے، اور سات رکعات سے کم پر آپ وتر نہیں پڑھتے تھے، اور نہ تیرہ رکعات سے زیادہ پڑھتے تھے (سنن ابی داود، مسند احمد)، اور تیرہ رکعتیں یوں کہ دو رکعتیں عشاء کے بعد کی سنتیں ہیں، یا وہ دو ہلکی رکعتیں جن سے نبی اکرم ﷺ تہجد کی نماز کا افتتاح فرماتے تھے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے اس کو راجح قرار دیا ہے۔ اور رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ وتر حق ہے، جو چاہے پانچ رکعت وتر پڑھے، جو چاہے تین رکعت، جو چاہے ایک ہی رکعت پڑھے، (طحاوی، ومستدرک الحاکم) یہ بھی واضح رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے بھی (۲۰) رکعت تراویح کا پڑھنا ثابت نہیں ہے، اور بیس رکعت پر اجماع کا جن لوگوں نے دعوی کیا ہے ان کا دعوی باطل ہے، سنت سے ثابت (۱۱) رکعت تراویح کی وجہ سے علماء نے اس سے زائد رکعات پر نکیر کی ہے۔

It was narrated that Abu Hurairah said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Whoever fasts Ramadan and spends its nights in prayer, out of faith and in hope of reward, his previous sins will be forgiven.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
حدیث نمبر: 1327
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب ، حدثنا مسلمة بن علقمة ، عن داود بن ابي هند ، عن الوليد بن عبد الرحمن الجرشي ، عن جبير بن نفير الحضرمي ، عن ابي ذر ، قال: صمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم رمضان، فلم يقم بنا شيئا منه حتى بقي سبع ليال، فقام بنا ليلة السابعة حتى مضى نحو من ثلث الليل، ثم كانت الليلة السادسة التي تليها، فلم يقمها حتى كانت الخامسة التي تليها، ثم قام بنا حتى مضى نحو من شطر الليل، فقلت: يا رسول الله، لو نفلتنا بقية ليلتنا هذه؟ فقال:" إنه من قام مع الإمام حتى ينصرف، فإنه يعدل قيام ليلة"، ثم كانت الرابعة التي تليها، فلم يقمها حتى كانت الثالثة التي تليها، قال: فجمع نساءه واهله واجتمع الناس، قال: فقام بنا حتى خشينا ان يفوتنا الفلاح، قيل: وما الفلاح؟، قال: السحور، قال: ثم لم يقم بنا شيئا من بقية الشهر.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ ، حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُرَشِيِّ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ، فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنْهُ حَتَّى بَقِيَ سَبْعُ لَيَالٍ، فَقَامَ بِنَا لَيْلَةَ السَّابِعَةِ حَتَّى مَضَى نَحْوٌ مِنْ ثُلُثِ اللَّيْلِ، ثُمَّ كَانَتِ اللَّيْلَةُ السَّادِسَةُ الَّتِي تَلِيهَا، فَلَمْ يَقُمْهَا حَتَّى كَانَتِ الْخَامِسَةُ الَّتِي تَلِيهَا، ثُمَّ قَامَ بِنَا حَتَّى مَضَى نَحْوٌ مِنْ شَطْرِ اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ؟ فَقَالَ:" إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ، فَإِنَّهُ يَعْدِلُ قِيَامَ لَيْلَةٍ"، ثُمَّ كَانَتِ الرَّابِعَةُ الَّتِي تَلِيهَا، فَلَمْ يَقُمْهَا حَتَّى كَانَتِ الثَّالِثَةُ الَّتِي تَلِيهَا، قَالَ: فَجَمَعَ نِسَاءَهُ وَأَهْلَهُ وَاجْتَمَعَ النَّاسُ، قَالَ: فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ، قِيلَ: وَمَا الْفَلَاحُ؟، قَالَ: السُّحُورُ، قَالَ: ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنْ بَقِيَّةِ الشَّهْرِ.
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپ نے کسی بھی رات ہمارے ساتھ نماز تراویح نہ ادا فرمائی، یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں، تو ساتویں (یعنی تیئیسویں) رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا، یہاں تک کہ رات تہائی کے قریب گزر گئی، پھر اس کے بعد چھٹی (یعنی چوبیسویں) رات کو جو اس کے بعد آتی ہے، آپ نے قیام نہیں کیا یہاں تک کہ اس کے بعد والی پانچویں یعنی (پچیسویں) رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ رات آدھی کے قریب گزر گئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش آپ باقی رات بھی ہمیں نفل پڑھاتے رہتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے، تو وہ ساری رات کے قیام کے برابر ہے، پھر جب اس کے بعد والی چوتھی (یعنی چھبیسویں) رات آئی تو آپ نے اس میں قیام نہیں کیا، جب اس کے بعد والی تیسری (یعنی ستائیسویں) رات آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں اور گھر والوں کو جمع کیا، اور لوگ بھی جمع ہوئے، ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ ہم سے «فلاح» فوت نہ ہو جائے، ان سے پوچھا گیا: «فلاح» کیا ہے؟ کہا: سحری: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان کے باقی دنوں میں تراویح باجماعت نہیں پڑھی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 318 (1375)، سنن الترمذی/الصوم 81 (806)، سنن النسائی/السہو 103 (1365)، قیام اللیل 4 (1606)، (تحفة الأشراف: 11903)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/159، 163)، سنن الدارمی/الصوم 54 (1818) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اگر مہینہ تیس دن کا شمار کیا جائے تو سات راتیں چوبیس سے رہتی ہیں، اور اگر انتیس دن کا مانا جائے تو تیئسویں سے سات راتیں رہتی ہیں اس حساب سے تیئسویں اور پچیسویں اور ستائیسویں رات میں نبی کریم ﷺ نے قیام کیا، یہ راتیں طاق بھی ہیں اور متبرک بھی، غالب یہی ہے کہ لیلۃ القدر بھی انہیں راتوں میں ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ستائیسویں رات کا لیلۃ القدر ہونا راجح ہے، لیلۃ القدرکی تعیین میں لوگوں کا بہت اختلاف ہے اور یقینی طور پر کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کب ہے، البتہ جو سال بھر تہجد پڑھتا رہے گا وہ لیلۃ القدر بھی ضرور پائے گا، ان شاء اللہ، اس حدیث میں یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صرف تین راتیں تراویح پڑھیں، دوسری حدیث میں ہے کہ چوتھی رات کو بھی لوگ جمع ہوئے لیکن آپ ﷺ حجرہ مبارک سے باہر تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں ڈرا ایسا نہ ہو یہ نماز تم پر فرض ہو جائے، اس حدیث سے تراویح کے باجماعت پڑھنے کی مشروعیت ثابت ہو گئی۔

It was narrated that Abu Dharr said: “We fasted Ramadan with the Messenger of Allah (ﷺ) and he did not lead us in praying Qiyam (prayers at night) during any part of it, until there were seven nights left. He led us in praying Qiyam on the seventh night until approximately one third of the night had passed. Then on the sixth night which followed it he did not lead us in prayer. Then he led us in praying Qiyam on the fifth night which followed it until almost half the night had passed. I said: ‘O Messenger of Allah, would that we had offered voluntary prayers throughout the whole night.’ He said: ‘Whoever stands with the Imam until he finishes, it is equivalent to spending the whole night in prayer.’ Then on the fourth night which followed it, he did not lead us in prayer, until the third night that followed it, when he gathered his wives and family, and the people gathered, and he led us in prayer until we feared that we would miss the Falah.” It was asked: “What is the Falah?” He said: “Suhur.” He said: “Then he did not lead us in prayer at night for the rest of the month.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1328
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، وعبيد الله بن موسى ، عن نصر بن علي الجهضمي ، عن النضر بن شيبان . ح وحدثنا يحيى بن حكيم ، حدثنا ابو داود ، حدثنا نصر بن علي الجهضمي ، والقاسم بن الفضل الحداني كلاهما، عن النضر بن شيبان ، قال: لقيت ابا سلمة بن عبد الرحمن ، فقلت: حدثني بحديث سمعته من ابيك يذكره في شهر رمضان، قال: نعم، حدثني ابي ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر شهر رمضان، فقال:" شهر كتب الله عليكم صيامه وسننت لكم قيامه، فمن صامه وقامه إيمانا واحتسابا خرج من ذنوبه كيوم ولدته امه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيّ ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ شَيْبَانَ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيّ ، وَالْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ الْحُدَّانِيُّ كِلَاهُمَا، عَنْ النَّضْرِ بْنِ شَيْبَانَ ، قَالَ: لَقِيتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، فَقُلْتُ: حَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ سَمِعْتَهُ مِنْ أَبِيكَ يَذْكُرُهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، قَالَ: نَعَمْ، حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ شَهْرَ رَمَضَانَ، فَقَالَ:" شَهْرٌ كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ وَسَنَنْتُ لَكُمْ قِيَامَهُ، فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ".
نضر بن شیبان کہتے ہیں کہ میں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے ملا اور کہا: آپ مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے، جو آپ نے رمضان سے متعلق اپنے والد سے سنی ہو، ابوسلمہ نے کہا: ہاں، میرے والد نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان کا ذکر کیا تو فرمایا: وہ ایسا مہینہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر اس کے روزے کو فرض قرار دیا ہے، اور میں نے اس کے قیام اللیل کو تمہارے لیے مسنون قرار دیا ہے، لہٰذا جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے اس مہینے میں روزے رکھے، اور راتوں میں نفل پڑھے، وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل جائے گا جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے جنا تھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الصیام 22 (2210)، (تحفة الأشراف: 9729)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/191، 195) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (نضر بن شیبان لین الحدیث ہے، جس کی وجہ سے یہ ضعیف ہے، لیکن دوسراٹکڑا فمن صامه وقامه إيمانا واحتسابا» شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، کما تقدم، نیز ملاحظہ ہو: التعلیق الرغیب 2 /73)

It was narrated that Nadr bin Shaiban said: “I met Abu Salamah bin ‘Abdur-Rahman and said: ‘Tell me a Hadith that you heard from your father, in which mention is made of the month of Ramadan.’ He said: ‘Yes, my father narrated to me that the Messenger of Allah (ﷺ) mentioned the month of Ramadan and said: “A month which Allah has enjoined upon you to fast, and in which I have established Qiyam (prayers at night) as Sunnah for you. So whoever fasts it and spends its nights in prayer out of faith and in hope of reward; he will emerge from his sins as on the day his mother bore him.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف والشطر الثاني منه صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.