كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 178. . بَابُ: مَا جَاءَ فِي كَمْ يُسْتَحَبُّ يُخْتَمُ الْقُرْآنُ باب: قرآن مجید کو کتنے دن میں ختم کرنا مستحب ہے؟
اوس بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثقیف کے ایک وفد میں آئے، تو لوگوں نے قریش کے حلیفوں کو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے پاس اتارا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو مالک کو اپنے ایک خیمہ میں اتارا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات عشاء کے بعد ہمارے پاس تشریف لاتے، اور کھڑے کھڑے باتیں کرتے یہاں تک کہ ایک پاؤں سے دوسرے پاؤں پر بدل بدل کر کھڑے رہتے، اور اکثر وہ حالات بیان کرتے جو اپنے خاندان قریش سے آپ کو پیش آئے تھے، اور فرماتے: ”ہم اور وہ برابر نہ تھے، ہم کمزور اور بے حیثیت تھے، لیکن جب ہم مدینہ آئے تو لڑائی کا ڈول ہمارے اور ان کے درمیان رہا، ہم ان کے اوپر ڈول نکالتے اور وہ ہمارے اوپر ڈول نکالتے“ ۱؎ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وقت مقررہ پر آنے میں تاخیر کی؟ تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے آج رات تاخیر کی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا قرآن کا وظیفہ پڑھنے سے رہ گیا تھا، میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اس کو پورا کئے بغیر نکلوں“۔ اوس کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے پوچھا: آپ لوگ قرآن کے وظیفے کیسے مقرر کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: پہلا حزب تین سورتوں کا (بقرہ، آل عمران اور نساء) دوسرا حزب پانچ سورتوں کا (مائدہ، انعام، اعراف، انفال اور براءۃ)، تیسرا حزب سات سورتوں کا (یونس، ہود، یوسف، رعد، ابراہیم، حجر اور نمل)، چوتھا حزب نو سورتوں کا (بنی اسرائیل، کہف، مریم، طہٰ، انبیاء، حج، مومنون، نور اور فرقان)، پانچواں حزب گیارہ سورتوں کا (شعراء، نحل، قصص، عنکبوت، روم، لقمان، سجدہ، احزاب، سبا، فاطر اور یٰسین)، اور چھٹا حزب تیرہ سورتوں کا (صافات، ص، زمر، ساتوں حوامیم، محمد، فتح اور حجرات)، اور ساتواں حزب مفصل کا (سورۃ ق سے آخر قرآن تک)۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 326 (1393)، (تحفة الأشراف: 1737) (ضعیف)» (اس سند میں ابوخالد متکلم فیہ نیز عثمان لین الحدیث ہیں، نیز ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود: 246)
وضاحت: ۱؎: ”لڑائی کا ڈول ہمارے اور ان کے درمیان رہا“ یعنی کبھی ہمیں فتح حاصل ہوتی اور کبھی انہیں۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے قرآن حفظ کیا، اور پورا قرآن ایک ہی رات میں پڑھنے کی عادت بنا لی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ڈر ہے کہ کچھ ہی عرصہ گزرنے کے بعد تم اکتا جاؤ گے، لہٰذا تم اسے ایک مہینے میں پڑھا کرو“ میں نے کہا: مجھے اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھانے دیجئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو دس دن میں پڑھا کرو“ میں نے کہا: مجھے اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھانے دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھیک ہے تو سات دن میں پڑھا کرو“ میں نے کہا: مجھے اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھانے دیجئیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8945)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم 54 (1978)، فضائل القرآن 34 (5053، 5054)، صحیح مسلم/الصوم 35 (1159)، سنن ابی داود/الصلاة 325 (1388)، سنن الترمذی/القراء ات 13 (2946)، سنن النسائی/الصیام 45 (2391، 2392)، مسند احمد (2/163، 199)، سنن الدارمی/فضائل القرآن 32 (3513) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی سات دن سے کم میں ختم قرآن کی اجازت نہ دی، صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ سات دن سے کم میں ختم قرآن نہ کرو، قسطلانی نے کہا کہ یہ نہی حرمت کے لئے نہیں ہے، اور بعض اہل ظاہر کے نزدیک تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنا حرام ہے، نووی کہتے ہیں کہ اس کی کوئی حد نہیں، جب تک جی لگے اور جتنی طاقت ہو، اس کے لحاظ سے قرآن پڑھے، اور بہتر یہی ہے کہ سات دن سے کم میں ختم نہ کرے، انتہاء تین دن میں، اور قرآن کے معانی اور مطالب میں غور و فکر کر کے پڑھے، اور ہمارے زمانہ میں تو قرآن کے معانی کا ترجمہ ہر زبان میں ہو گیا ہے، پس ترجمہ کے ساتھ تلاوت کرنا زیادہ ثواب ہے، فقیہ ابواللیث کہتے ہیں کہ اقل درجہ یہ ہے کہ آدمی سال بھر میں قرآن دو بار ختم کرے، اور حسن بن زیاد نے ابوحنیفہ رحمۃ اللہ سے نقل کیا ہے کہ جس نے سال بھر میں دو بار پورے قرآن کی قراءت مکمل کی اس نے قرآن کا حق ادا کیا، کیونکہ جبرئیل علیہ السلام نے جس سال نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی، دوبار قرآن کا دور کیا، اور بعض نے کہا چالیس دن سے زیادہ ختم قرآن میں تاخیر کرنا مکروہ ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قرآن تین دن سے کم میں پڑھا، اس نے سمجھ کر نہیں پڑھا“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 326 (1394)، سنن الترمذی/القراء ا ت 13 (2949)، (تحفة الأشراف: 8950)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/163، 199)، سنن الدارمی/الصلاة 173 (1534)، فضائل القرآن 32 (3514) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی رات میں پورا قرآن پڑھا ہو۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/قیام اللیل 15 (1642)، (تحفة الأشراف: 16108)، و صحیح مسلم/المسافرین 18 (746) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|