كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 181. بَابُ: مَا جَاءَ فِي كَمْ يُصَلِّي بِاللَّيْلِ باب: تہجد میں کتنی رکعتیں پڑھے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء کے بعد سے فجر تک گیارہ رکعت پڑھتے تھے، اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے، اور ان رکعتوں میں سجدہ اتنا طویل کرتے کہ کوئی سر اٹھانے سے پہلے پچاس آیتیں پڑھ لے، اور جب مؤذن صبح کی پہلی اذان سے فارغ ہو جاتا تو آپ کھڑے ہوتے، اور دو ہلکی رکعتیں پڑھتے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 316 (1336، 1337)، سنن النسائی/الأذان 41 (686)، (تحفة الأشراف: 15615، 16618، ومصباح الزجاجة: 477)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 12 (619)، االتہجد 3 (1123)، صحیح مسلم/المسافرین 17 (736)، سنن الترمذی/الصلاہ 209 (441)، موطا امام مالک/صلاة اللیل 2 (8)، مسند احمد (6/34، 35)، سنن الدارمی/الصلاہ 148 (1487) (صحیح)» (بوصیری نے اس حدیث کی تخریج میں سنن کبریٰ کا ذکر کیا ہے، جب کہ یہ سنن صغری میں ہے، اس لئے یہ زدائد میں سے نہیں ہے، کما سیأتی: 361 أیضاً)
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 17 (737)، (تحفة الأشراف: 17052)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التہجد 10 (1140)، سنن ابی داود/الصلاة 316 (1334)، سنن الترمذی/الصلاة210 (444)، موطا امام مالک/صلاة اللیل 2 (8) (صحیح)» (دوسری روایت میں ہے کہ تیرہ رکعتوں میں ایک رکعت وتر کی، اور دو رکعت فجر کی سنت تھی، نیز دوسری احادیث میں 11 رکعت کا ذکر ہے اس لئے بعض اہل علم نے 13 والی رکعت کو شاذ کہا ہے، ملاحظہ ہو: فتح الباری و تمام المنة)۔
قال الشيخ الألباني: شاذ والمحفوظ احدى عشرة ركعة
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں نو رکعتیں پڑھتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 211 (443، 444)، سنن النسائی/قیام اللیل 33 (1697)، (تحفة الأشراف: 15951)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 12 (619)، الوتر 3 (1123)، صحیح مسلم/المسافرین 17 (738)، سنن ابی داود/الصلاہ 293 (1334)، مسند احمد (6/100، 253)، سنن الدارمی/الصلاة 148، (1487) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس باب میں مختلف روایات وارد ہوئی ہیں، کسی میں سات رکعت ہے، کسی میں نو رکعت، کسی میں گیارہ رکعت، اور کسی میں تیرہ رکعت کا ذکر ہے، واضح رہے آپ ﷺ تہجد کی ہمیشہ آٹھ رکعت پڑھتے، اور یہ اختلاف وتر میں ہے کیونکہ آپ کبھی وتر کی ایک رکعت پڑھتے، تو کل نو رکعت ہوتیں، اور کبھی تین رکعت پڑھتے تو گیارہ رکعت ہوتیں، اور کبھی پانچ رکعت وتر پڑھتے تو سب مل کر تیرہ رکعت ہو جاتیں، اور بعض نے تیرہ رکعت کی اس طرح توجیہ کی ہے کہ آپ آٹھ رکعت تہجد، اور تین رکعت وتر، اور دو رکعت فجر کی سنتیں سب مل کر تیرہ رکعت ہوتیں ہیں پڑھتے تھے جیسا کہ آنے والی حدیث میں مذکور ہے واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عامر شعبی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا تو ان دونوں نے کہا: تیرہ رکعت، ان میں آٹھ رکعت (تہجد کی ہوتی) اور تین رکعت وتر ہوتی، اور دو رکعت فجر کے بعد کی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5770، ومصباح الزجاجة: 476) (صحیح)» (دوسری سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ابواسحاق مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے)
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جی میں کہا کہ میں آج رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ضرور دیکھوں گا، میں نے آپ کی چوکھٹ یا خیمہ پر ٹیک لگا لیا، آپ کھڑے ہوئے، آپ نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں، پھر اس کے بعد دو رکعتیں کافی لمبی پڑھیں، پھر دو رکعتیں پچھلی دو رکعتوں سے کچھ ہلکی پڑھیں، پھر دو رکعتیں پچھلی دو رکعتوں سے ہلکی پڑھیں، پھر دو رکعتیں پچھلی دو رکعتوں سے ہلکی پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر وتر ادا کی تو یہ سب تیرہ رکعتیں ہوئیں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 26 (765)، سنن ابی داود/الصلاة 316 (1366)، (تحفة الأشراف: 3753)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/صلاة اللیل 2 (13)، سنن الترمذی/الشمائل (269)، مسند احمد (5/192) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس روایت سے تہجد کی بارہ رکعت نکلتی ہیں، اور ایک رکعت وتر کی، اور احتمال ہے کہ تہجد کی آٹھ ہی رکعت ہوں، اور پانچ وتر کی ہوں، لیکن دو، دو رکعت الگ الگ پڑھنے سے راوی کو گمان ہوا ہو کہ یہ بھی تہجد ہے، «واللہ اعلم» ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ وہ اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس سوئے، وہ کہتے ہیں: میں تکیہ کی چوڑان میں لیٹا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی اس کی لمبائی میں لیٹے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، جب آدھی رات سے کچھ کم یا کچھ زیادہ وقت گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے، اور نیند کو زائل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ اپنے چہرہ مبارک پر پھیرنے لگے، پھر سورۃ آل عمران کی آخری دس آیتیں پڑھیں، اس کے بعد ایک لٹکی ہوئی مشک کے پاس گئے، اور اس سے اچھی طرح وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، میں بھی اٹھا، اور میں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، پھر میں گیا، اور آپ کی بغل میں کھڑا ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا، اور میرے دائیں کان کو ملتے رہے، آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں پھر وتر ادا کی، پھر لیٹ گئے، جب مؤذن آیا تو دو ہلکی رکعتیں پڑھیں پھر نماز (فجر) کے لیے نکل گئے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 5 37 (183)، الأذان 58 (698)، 77 (726)، 161 (859)، الوتر 1 (992)، العمل في الصلاة 1 (1198)، الدعوات 10 (6316)، التوحید 27 (7452)، صحیح مسلم/المسافرین 26 (763)، سنن ابی داود/الصلاة 316 (1367)، سنن الترمذی/الشمائل 38 (265)، سنن النسائی/الأذان 41 (687)، التطبیق 63 (1122)، قیام اللیل 9 (1621)، (تحفة الأشراف: 6362)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/صلاة اللیل 2 (11)، مسند احمد (1/245، 343، 358) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|