كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 200. . بَابُ: مَا جَاءَ فِي طُولِ الْقِيَامِ فِي الصَّلاَةِ باب: نماز میں قیام لمبا کرنے کا بیان۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ برابر کھڑے رہے یہاں تک کہ میں نے ایک برے کام کا ارادہ کر لیا، (راوی ابووائل کہتے ہیں:) میں نے پوچھا: وہ کیا؟ کہا: میں نے یہ ارادہ کر لیا کہ میں بیٹھ جاؤں، اور آپ کو (کھڑا) چھوڑ دوں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التھجد 9 (1135)، صحیح مسلم/المسافرین 27 (773)، سنن الترمذی/في الشمائل (278)، (تحفة الأشراف: 9249) وقد أخرجہ: مسند احمد (1/385، 396، 415، 440) (صحیح)»
وضاحت: نماز تہجد باجماعت جائز ہے۔ نماز تہجد میں طویل قرات افضل ہے۔ شاگردوں کو تربیت دینے کے لیے ان سے مشکل کام کروانا جائز ہے اگرچہ اس میں مشقت ہو۔ استاد کا خود نیک عمل کرنا شاگردوں کو اس کا شوق دلاتا اور ہمت پیدا کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نیک کا اس قدر شوق رکھتے تھے کہ افضل کام کو چھوڑ کر جائز کام اختیار کرنے کو انہوں نے برا کام قرار دیا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ آپ کے پیروں میں ورم آ گیا، تو عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ بخش دئیے ہیں (پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں (اللہ کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التہجد 6 (1130)، تفسیرالفتح 2 (4836)، الرقاق 20 (6471)، صحیح مسلم/المنافقین 18 (2819)، سنن الترمذی/الصلاة 188 (412)، سنن النسائی/قیام اللیل 15 (1645)، (تحفة الأشراف: 11498)، مسند احمد (4/251، 255) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس مغفرت پر شکر نہ ادا کروں؟ سبحان اللہ! جب نبی کریم ﷺ نے باوصف ایسے علو مرتبہ اور جلالت شان کے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ کا درجہ ہے، عبادت کو ترک نہ کیا، اور دوسرے لوگوں سے زیادہ آپ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت و عبادت اور ذکر الٰہی میں مصروف رہتے تھے، تو کسی دوسرے کا یہ خیال کب صحیح ہو گا کہ آدمی جب ولایت کے اعلی درجہ کو پہنچ جاتا ہے تو اس کے ذمہ سے عبادت ساقط ہو جاتی ہے، یہ صاف ملحدانہ خیال ہے، بلکہ جتنا بندہ اللہ سے زیادہ قریب ہوتا جاتا ہے اتنا ہی اس کا شوق عبادت بڑھتا جاتا ہے، دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ ساری رات نماز میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «ما أنزلنا عليك القرآن لتشقى» یعنی ہم نے آپ پر اس لئے قرآن نہیں اتارا کہ آپ اتنی مشقت اٹھائیں (سورة طه: 2)۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے، آپ سے عرض کیا گیا: اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے سارے گناہ معاف کر دئیے ہیں (پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12481، ومصباح الزجاجة: 502) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سی نماز افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس میں قیام لمبا ہو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 22 (65)، (تحفة الأشراف: 2827)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 168 (387)، مسند احمد (3/302، 391، 412، 4/385) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|