كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 153. . بَابُ: مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ الاِسْتِسْقَاءِ باب: نماز استسقا کا بیان۔
اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ امراء میں سے کسی امیر نے مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس نماز استسقاء کے متعلق پوچھنے کے لیے بھیجا، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: امیر نے مجھ سے خود کیوں نہیں پوچھ لیا؟ پھر بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاجزی کے ساتھ سادہ لباس میں، خشوع خضوع کے ساتھ، آہستہ رفتار سے، گڑگڑاتے ہوئے (عید گاہ کی طرف) روانہ ہوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کی طرح دو رکعت نماز پڑھائی، اور اس طرح خطبہ نہیں دیا جیسے تم دیتے ہو ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 258 (1165)، سنن الترمذی/الصلاة 278 (الجمعة43) (558، 559)، سنن النسائی/الاستسقاء 3 (1507)، 4 (1509)، 13 (1522)، (تحفة الأشراف: 5359)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/230، 260، 355) (حسن) (تراجع الألبانی: رقم: 534)»
وضاحت: ۱؎: حجۃ اللہ البالغۃ میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کے لئے استسقاء کئی بار مختلف طریقوں سے کیا لیکن جو طریقہ سنت کا اپنی امت کے لئے اختیار کیا وہ یہ ہے کہ لوگوں سمیت نہایت عاجزی کے ساتھ عید گاہ تشریف لے گئے، اور دو رکعتیں پڑھیں، ان میں زور سے قراءت کی، پھر خطبہ پڑھا، اور قبلے کی طرف منہ کیا، خطبہ میں دعا مانگی، اور دونوں ہاتھ اٹھائے، اور اپنی چادر پلٹی، استسقاء کی نماز دو رکعت مسنون ہے، ان کے بعد خطبہ ہے، اس کے وجوب کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک استسقاء میں صرف دعا اور استغفار کافی ہے، جب کہ متعدد احادیث میں نماز وارد ہے، اور جن حدیثوں میں نماز کا ذکر نہیں ان سے نماز کی نفی لازم نہیں آتی، اور ابن ابی شیبہ نے جو عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ وہ استسقاء کو نکلے پھر نہ زیادہ کیا استغفار پر، یہ ایک صحابی کا موقوف اثر ہے، قطع نظر اس کے سنت کے ترک سے اس کی سنیت باطل نہیں ہوتی، اور اسی پر وہ مرفوع حدیث بھی محمول ہو گی جس میں نماز کا ذکر نہیں ہے، اور صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں آپ کا وسیلہ لیتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ لیا، اس معنی میں کہ نبی اکرم ﷺ نے خود استسقاء کی نماز ادا فرمائی، اور بارش کی دعا کی، آپ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے یہاں اور کون تھا، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو نماز استسقاء کے لیے آگے بڑھایا کیونکہ آپ کی بزرگی، صالحیت اور اللہ کے رسول سے تعلق کی وجہ سے اس بات کی توقع کی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں آپ کی دعا قبول ہو گی، اور بعض روایتوں میں نماز سے پہلے خطبہ وارد ہے، اور دونوں طرح صحیح ہے، (ملاحظہ ہو: الروضہ الندیہ)۔ قال الشيخ الألباني: حسن
عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید گاہ کی جانب نماز استسقاء کے لیے نکلے، آپ نے قبلہ کی طرف رخ کیا، اپنی چادر کو پلٹا، اور دو رکعت نماز پڑھائی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاستسقاء 1 (1005)، 4 (1011)، 15 (1023)، 16 (1024)، 17 (1025)، 18 (1026)، 19 (1027)، 20 (1028)، الدعوات 25 (6343)، صحیح مسلم/الاستسقاء 1 (894)، سنن ابی داود/الصلاة 258 (1161)، 259 (1166)، سنن الترمذی/الصلاة 278 (الجمعة 43) (556)، سنن النسائی/الاستسقاء 2 (1506)، 3 (1508)، 5 (1510)، 6 (1511)، 7 (1512)، 8 (1513)، 12 (1521)، 14 (1523)، (تحفة الأشراف: 5297)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ صلاةالإستسقاء 1 (1) مسند احمد (4/39، 40، 41، 42)، سنن الدارمی/الصلاة 188 (1574) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی چادر کو اس طرح پلٹا کہ اوپر کا حصہ نیچے ہو گیا، اور نیچے کا اوپر، اور داہنا کنارہ بائیں طرف ہو گیا، اور بایاں کنارہ داہنی طرف اس کا طریقہ یہ ہے کہ داہنے ہاتھ سے چادر کا نیچے کا بایاں کونہ اور بائیں ہاتھ سے نیچے کا داہنا کونہ پکڑ کر پیٹھ کے پیچھے اپنے دونوں ہاتھوں کو پھرا دے اس طرح سے کہ جو کونہ داہنے ہاتھ سے پکڑا ہے وہ داہنے کندھے پر آ جائے، اور جو بائیں ہاتھ سے پکڑا ہے وہ بائیں کندھے پر آ جائے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قول المسعودي سألت. . الخ
اس سند سے بھی عباد بن تمیم نے اپنے چچا (عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ) سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، اس میں اتنا زیادہ ہے کہ سفیان ثوری نے مسعودی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے ابوبکر بن محمد بن عمرو سے پوچھا کہ چادر کو کیسے پلٹا، کیا اوپر کا حصہ نیچے کر دیا، یا دائیں کو بائیں جانب کر دیا؟ انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ دائیں کو بائیں جانب کر لیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قول المسعودي سألت. . الخ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نماز استسقاء پڑھنے کے لیے نکلے، تو بغیر اذان و اقامت کے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیا، اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی، اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے اپنا منہ قبلہ کی طرف کیا، پھر اپنی چادر پلٹی تو دایاں جانب بائیں کندھے پر اور بایاں جانب دائیں کندھے پر کر لیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12291، ومصباح الزجاجة: 442)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/326) (ضعیف)» (بوصیری نے اسناد کو صحیح کہا اور رجال کو ثقات بتایا، جب کہ سند میں نعمان بن راشد صدوق سئی الحفظ ہیں، ابن خزیمہ فرماتے ہیں کہ نعمان کی توثیق کے سلسلہ میں دل میں کچھ شک ہے، اس لئے کہ ان کی زہری سے روایت میں بہت خلط ملط ہے، اگر یہ خبر ثابت ہو جائے، تو اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیا اور دعا کی، اور دو مرتبہ اپنی چادر پلٹی، ایک بار صلاة سے پہلے ایک بار اس کے بعد صحیح ابن خزیمہ: 2/338، لیکن البانی صاحب نے حدیث کی تضعیف کی)
وضاحت: ۱؎: استسقا (بارش طلب کرنے) میں جہاں تک ہو سکے امام کو اور رعایا کو اللہ تعالی سے گڑگڑا کر رو رو کر دعائیں مانگنی چاہئے، اور سب لوگوں کو اپنے گناہوں سے توبہ اور استغفار کرنا چاہئے، کیونکہ پانی گناہوں کی نحوست سے رک جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
|