كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 73. بَابُ: تَقْصِيرِ الصَّلاَةِ فِي السَّفَرِ باب: سفر میں نماز قصر کرنے کا بیان۔
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سفر کی نماز دو رکعت ہے، جمعہ اور عید بھی دو رکعت ہیں، بہ زبان محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ کامل ہیں ناقص نہیں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10596، ومصباح الزجاجة: 378)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الجمعة 37 (1421)، مسند احمد (1/37) (صحیح)» (سند میں شریک القاضی سیء الحفظ ہیں، لیکن سفیان ثوری نے مسند احمد میں ان کی متابعت کی ہے، اور عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ کا عمر رضی اللہ عنہ سے سماع مختلف فیہ ہے، لیکن بعض علماء نے سماع کو ثابت مانا ہے، ملاحظہ ہو: نصب الرایہ: 2/189، و الإرواء: 3/106)
وضاحت: ۱؎: یعنی سفر میں دو ہی رکعتیں واجب ہیں، اور یہ نہیں ہے کہ چار واجب تھیں سفر کی وجہ سے دو ہو گئیں اب قرآن کریم میں جو آیا ہے: «وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة» ”جب تم سفر میں ہو تو تم پر نماز کو قصر پڑھنے میں کوئی گناہ نہیں ہے“ (سورۃ النساء: ۱۰۱)، یہاں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، کہ یہ آیت سفر میں نازل ہوئی، اور خوف کی قید اتفاقی ہے، مفسرین کی ایک جماعت کی یہی رائے ہے، یا خوف کی حالت میں نازل ہوئی، اور سفر کی حالت اتفاقی ہے، مفسرین کی ایک جماعت نے آیت میں قصر سے مراد رکوع اور سجود کو ایما اور اشارہ سے کرنے کے معنی میں لیا ہے، اور امام بخاری نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ نماز پہلے دو ہی رکعت فرض ہوئی تھی پھر سفر کی نماز اپنی حالت پر باقی رہی اور حضر میں دو دو رکعتیں بڑھا دی گئیں، اکثر ائمہ کے یہاں سفر میں قصر واجب ہے، امام ابوحنیفہ کے یہاں اتمام ناجائز ہے، اور امام شافعی کے نزدیک سفر میں قصر و اتمام دونوں جائز ہے، اور قصر افضل ہے، اور احادیث سے قصر کا وجوب ہی ثابت ہوتا ہے، اور نبی کریم ﷺ سے اسفار میں ہمیشہ قصر ہی ثابت ہے، ملاحظہ ہو: (الروضہ الندیہ: ۱/۳۷۳، ۳۷۴) قال الشيخ الألباني: صحيح
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سفر کی نماز دو رکعت ہے، اور جمعہ کی نماز دو رکعت ہے، عید الفطر اور عید الاضحی کی دو دو رکعت ہے، بہ زبان محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ کامل ہیں ناقص نہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10629، ومصباح الزجاجة: 379) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، میں نے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا» ”نماز قصر کرنے میں تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں اگر کافروں کی فتنہ انگیزیوں کا ڈر ہو“ (سورۃ النساء: ۱۰۱)، اب اس وقت تو لوگ مامون (امن و امان میں) ہو گئے ہیں؟ انہوں نے کہا: جس بات پر تمہیں تعجب ہوا مجھے بھی اسی پر تعجب ہوا تھا، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ صدقہ ہے، جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے، لہٰذا تم اس کے صدقہ کو قبول کرو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 1 (686)، سنن ابی داود/الصلاة270 (1199، 1200)، سنن الترمذی/تفسیر سورة النساء (3034)، سنن النسائی/تقصیر الصلاة 1 (1434)، (تحفة الأشراف: 10659)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/25، 36)، سنن الدارمی/الصلاة 179 (1546) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اللہ تعالیٰ کا ایک صدقہ ہمارے اوپر یہ ہے کہ سفر میں دشمنوں کا ڈر نہ رہتے بھی نماز قصر مشروع اور ثابت ہے، اور رسول اکرم ﷺ اپنے تمام اسفار میں قصر کرتے تھے، اس حدیث سے بھی قصر کے وجوب کی تائید ہوتی ہے، اس لئے کہ اس میں نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے صدقے کو قبول کرنے کا حکم دیا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
امیہ بن عبداللہ بن خالد سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: ہم قرآن میں نماز حضر اور نماز خوف کا ذکر پاتے ہیں، لیکن سفر کی نماز کا ذکر نہیں پاتے؟ تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے کہا: اللہ تعالیٰ نے ہماری جانب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے، اور ہم دین کی کچھ بھی بات نہ جانتے تھے، ہم وہی کرتے ہیں جیسے ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/التقصیر1 (1435)، (تحفة الأشراف: 6380)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/66، 94) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حالانکہ قرآن کریم میں یہ آیت موجود ہے: «وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا» اخیر تک، یعنی: ”جب تم زمین میں سفر کرو تو نماز کے قصر کرنے میں تم پر گناہ نہیں، اگر تم کو ڈر ہو کہ کافر تم کو ستائیں گے“، اس آیت سے سفر کی نماز کا حکم نکلتا ہے، مگر چونکہ اس میں قید ہے کہ اگر تم کو کافروں کا ڈر ہو تو امیہ بن عبداللہ نے نماز خوف سے اس کو خاص کیا، کیونکہ صرف سفر کا حکم جس میں ڈر نہ ہو قرآن میں نہیں پایا، اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ حکم صاف طور سے قرآن میں نہیں ہے، لیکن نبی اکرم ﷺ کے فعل سے مطلق سفر میں قصر کرنا ثابت ہے، پس حدیث سے جو امر ثابت ہو اس کی پیروی تو ویسے ہی ضروری ہے، جیسے اس امر کی جو قرآن سے ثابت ہو، ہم تک قرآن اور حدیث دونوں نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ سے پہنچا ہے، اور قرآن میں حدیث کی پیروی کا صاف حکم ہے، جو کوئی صرف قرآن پر عمل کرنے کا دعویٰ کرے، اور حدیث کو نہ مانے وہ گمراہ ہے، اور اس نے قرآن کو بھی نہیں مانا، اس لئے کہ قرآن میں صاف حکم ہے: «وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا» اور فرمایا: «من يطع الرسول فقد أطاع الله» اور یہ ممکن نہیں کہ حدیث کے بغیر کوئی قرآن پر عمل کر سکے، اس لئے کہ قرآن مجمل ہے، اور حدیث اس کی تفسیر ہے، مثلاً قرآن میں نماز ادا کرنے کا حکم ہے لیکن اس کے شرائط، ارکان، اور کیفیات کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، اسی طرح زکاۃ، حج، روزہ وغیرہ دین کے ارکان بھی صرف قرآن دیکھ کر ادا نہیں ہو سکتے، اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: «ألا إني أوتيت القرآن ومثله معه» ”خبردار ہو! مجھے قرآن دیا گیا، اور اس کے مثل ایک اور“، یعنی حدیث۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس شہر سے باہر نکلتے تو دو رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے یہاں تک کہ آپ یہاں لوٹ آتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6655)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/99، 124) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حالانکہ مدینہ سے نکلتے ہی کافروں کا ڈر نہ ہوتا، پھر معلوم ہوا کہ بغیر ڈر کے بھی سفر میں قصر درست ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسافر جب شہر سے نکل جائے اس وقت سے قصر شروع کرے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حضر (اقامت) میں چار رکعتیں اور سفر میں دو رکعتیں فرض کیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین (687)، سنن ابی داود/الصلاة 287 (1247)، سنن النسائی/الصلاة 3 (457)، التقصیر1 (1443) الخوف 1 (1533)، (تحفة الأشراف: 6380)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/237، 243) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|