كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 103. . بَابُ: مَا جَاءَ فِي إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلاَّ الْمَكْتُوبَةُ باب: فرض نماز کی اقامت کے بعد کوئی اور نماز نہ پڑھنے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب فرض نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی بھی نماز نہیں ہوتی“۔ اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی کے ہم مثل حدیث مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 9 (710)، سنن ابی داود/الصلاة 294 (1266)، سنن الترمذی/الصلاة 196 (421)، سنن النسائی/الإمامة 60 (866، 867)، (تحفة الأشراف: 14228)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/331، 455، 517، 531)، سنن الدارمی/الصلاة 149 (1488) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فرض نماز کے لیے تکبیر ہو جائے تو نفل پڑھنا جائز نہیں، وہ سنت موکدہ ہی کیوں نہ ہوں، بعض لوگوں نے فجر کی سنت کو اس سے مستثنیٰ اور الگ کیا ہے، لیکن یہ استثناء صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ مسلم بن خالد کی روایت میں جسے انہوں نے عمرو بن دینار سے روایت کیا ہے، مزید وارد ہے «قيل: يا رسول الله! ولا ركعتي الفجر؟ قال: ولا ركعتي الفجر» اس کی تخریج ابن عدی نے یحییٰ بن نصر بن حاجب کے ترجمہ میں کی ہے، اور اس کی سند کو حسن کہا ہے، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت جس کی تخریج بیہقی نے کی ہے، اور جس میں «إلا ركعتي الفجر» کا اضافہ ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اس زیادتی کے متعلق بیہقی خود فرماتے ہیں «هذه الزيادة لا أصل لها» یعنی یہ اضافہ بے بنیاد ہے اس کی سند میں حجاج بن نصر اور عباد بن کثیر ہیں یہ دونوں ضعیف ہیں اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
امام ابن ماجہ نے ایک تیسری سند سے مذکورہ روایت کی مثل بیان کیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو نماز فجر سے پہلے دو رکعت پڑھ رہا تھا، اس وقت آپ فرض پڑھ رہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”اپنی دونوں نماز میں سے کس نماز کا تم نے اعتبار کیا؟“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 9 (712)، سنن ابی داود/الصلاة 294 (1265)، سنن النسائی/الإمامة 61 (869)، (تحفة الأشراف: 5319)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/82) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی وہ جو تم نے اکیلے پڑھی یا وہ جو امام کے ساتھ پڑھی، رسول اکرم ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ جب امام نماز کے لئے کھڑا ہو، تو اب فرض نماز کے علاوہ دوسری نماز نہ پڑھنی چاہئے، چاہے وہ فجر کی سنت ہی کیوں نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہا تھا، اور نماز فجر کے لیے اقامت کہی جا رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ کہا جو میری سمجھ میں نہیں آیا، جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوا تو ہم اس کے گرد یہ پوچھنے کے لیے جمع ہو گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا کہا تھا؟ اس شخص نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”قریب ہے کہ اب تم میں سے کوئی فجر کی نماز چار رکعت پڑھے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 38 (663)، صحیح مسلم/المسافرین 9 (711)، سنن النسائی/الإمامة 60 (868)، (تحفة الأشراف: 9155)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/345، 346)، دی/الصلاة 149 (1490) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: فجر کی چار رکعت پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اقامت کے بعد وہ دو رکعت سنت پڑھتا ہے، جبکہ وہ فرض نماز کا محل ہے، گویا کہ اس نے فرض کو چار رکعت پڑھ ڈالا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|