كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 116. . بَابُ: مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ بِرَكْعَةٍ باب: ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں دو دو رکعت پڑھتے تھے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوتر1 (995)، صحیح مسلم/المسافرین20 (749)، سنن الترمذی/الصلاة 222 (461)، (تحفة الأشراف: 6652، 7267)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 338 (1421)، سنن النسائی/قیام اللیل34 (1690)، موطا امام مالک/صلاة اللیل 3 (13)، مسند احمد (2/33، 43، 45، 49، 51، 54، 81، 83، 154)، سنن الدارمی/الصلاة 154 (1499)، 155 (1500) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو دو رکعت اور وتر ایک رکعت ہے“، ابومجلز (لاحق بن حمید) کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ آپ مجھے بتائیے کہ اگر میری آنکھ لگ جائے، اگر میں سو جاؤں؟ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر مگر اس ستارے کے پاس لے جاؤ، میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو ستارہ سماک ۱؎ چمک رہا تھا، پھر انہوں نے وہی جملہ دہرایا، اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور وتر صبح سے پہلے ایک رکعت ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8560) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «سماک»: ایک ستارہ کا نام ہے، «سما کان»: دو روشن ستارے، ایک کا نام «السماء الرامح» ہے، دوسرے کا «السماء الأعزل» ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
مطلب بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: میں وتر کیسے پڑھوں؟ تو انہوں نے کہا: تم ایک رکعت کو وتر بناؤ، اس شخص نے کہا: میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس نماز کو «بتیراء» (دم کٹی نماز) کہیں گے، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کی سنت ہے، ان کی مراد تھی کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی سنت ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7459، ومصباح الزجاجة: 415) (صحیح)» (سند میں انقطاع ہے کیونکہ بقول امام بخاری (التاریخ الکبیر: 8/ 8) مطلب بن عبد اللہ کا سماع کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں ہے، الا یہ کہ انہوں نے کہا ہے کہ مجھ سے بیان کیا اس شخص نے جو نبی اکرم ﷺ کے خطبہ میں حاضر تھا، اور ابو حاتم نے فرمایا: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی، میں نہیں جانتا کہ ان سے سنایا نہیں سنا (المراسیل: 209)، پھر الجرح و التعدیل میں کہا کہ ان کی روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرسل (منقطع) ہے، شاید یہ تصحیح شواہد کی وجہ سے ہے، جس کو مصباح الزجاجة (419) میں ملاحظہ کریں، یہ حدیث صحیح ابن خزیمہ (1074) میں ہے، جس کے اسناد کی تصحیح البانی صاحب نے کی ہے، جب کہ ابن ماجہ میں ضعیف لکھا ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعت پہ سلام پھیرتے تھے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16618، ومصباح الزجاجة: 416) (صحیح الإسناد)»
|