كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 135. . بَابُ: مَا جَاءَ فِي سَجْدَتَيِ السَّهْوِ قَبْلَ السَّلاَمِ باب: سلام سے پہلے سجدہ سہو کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان تم میں سے کسی کے پاس نماز کی حالت میں آتا ہے، اور انسان اور اس کے دل کے درمیان داخل ہو کر وسوسے ڈالتا ہے، یہاں تک کہ آدمی نہیں جان پاتا کہ اس نے زیادہ پڑھی یا کم پڑھی، جب ایسا ہو تو سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے، پھر سلام پھیرے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 31 (516)، 198 (1032)، (تحفة الأشراف: 15252)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 4 (608)، صحیح مسلم/المساجد 19 (389)، سنن الترمذی/الصلاة 174 (397)، موطا امام مالک/السہو 1 (1) (حسن صحیح)» ( «قبل أن یسلم» کا جملہ صحیح نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎: سجدہ سہو کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے کہ آدمی اسے سلام سے پہلے کرے، یا سلام کے بعد، بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اسے سلام کے بعد کرے، یہ قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا کہ اسے سلام سے پہلے کرے، یہی قول اکثر فقہائے مدینہ مثلاً یحیی بن سعید، ربیعہ اور امام شافعی وغیرہ کا ہے، اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سجدہ سہو سلام کے بعد کرے، اور جب کمی رہ گئی ہو تو سلام سے پہلے کرے، یہ قول مالک بن انس کا ہے، اور امام احمد کہتے ہیں کہ جس صورت میں جس طرح پر سجدہ سہو نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے اس صورت میں اسی طرح سجدہ سہو کرے، وہ کہتے ہیں کہ جب دو رکعت کے بعد کھڑا ہو جائے تو ابن بحینہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق سلام سے پہلے سجدہ کرے اور جب ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھ لے تو وہ سجدہ سلام کے بعد کرے، اور اگر ظہر و عصر کی نماز میں دو ہی رکعت میں سلام پھیر دے تو ایسی صورت میں سلام کے بعد سجدہ سہو کرے، اسی طرح جس صورت میں جیسے اللہ کے رسول ﷺ کا فعل موجود ہے، اس پر اس طرح عمل کرے، اور جس صورت میں رسول اللہﷺ سے کوئی فعل مروی نہ ہو تو اس میں سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک شیطان انسان اور اس کے دل کے درمیان داخل ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ نہیں جان پاتا کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی؟ جب ایسا ہو تو سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14962)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 4 (608)، العمل في الصلاة 18 (1222)، السہو 6 (1231)، بدء الخلق 11 (3285)، صحیح مسلم/السہو19 (389) سنن ابی داود/الصلاة 31 (516)، مسند احمد (2/313، 398، 411) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شک کی صورت میں سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے، امام احمد نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے اور بخاری، اور مسلم نے ابوسعید رضی اللہ عنہ سے ایسا ہی روایت کیا ہے، اور مغیرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں کمی کی صورت میں سلام کے بعد سجدہ منقول ہے، غرض اس باب میں مختلف حدیثیں وارد ہیں، کسی میں سلام سے پہلے سجدہ سہو منقول ہے، کسی میں سلام کے بعد، اس لیے اہل حدیث نے دونوں طرح جائز رکھا ہے، اور اسی کو صحیح مذہب قرار دیا ہے تاکہ سب حدیثوں پر عمل ہو جائے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
|