كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 174. . بَابُ: مَا جَاءَ فِي قِيَامِ اللَّيْلِ باب: تہجد (قیام اللیل) پڑھنے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص کی گدی پر رات میں شیطان رسی سے تین گرہیں لگا دیتا ہے، اگر وہ بیدار ہوا اور اللہ کو یاد کیا، تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، پھر جب اٹھ کر وضو کیا تو ایک گرہ اور کھل جاتی ہے، پھر جب نماز کے لیے کھڑا ہوا تو ساری گرہیں کھل جاتی ہیں، اس طرح وہ چست اور خوش دل ہو کر صبح کرتا ہے، جیسے اس نے بہت ساری بھلائی حاصل کر لی ہو، اور اگر ایسا نہ کیا تو سست اور بری حالت میں صبح کرتا ہے، جیسے اس نے کوئی بھی بھلائی حاصل نہیں کی“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12550)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التہجد 12 (1442)، بدأالخلق 11 (3269)، صحیح مسلم/المسافرین 28 (776)، سنن ابی داود/الصلاة 307 (1306)، سنن النسائی/قیام اللیل5 (1608)، موطا امام مالک/قصرالصلاة 25 (95)، مسند احمد (2/243، 253) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مولف نے اس حدیث سے قیام اللیل مراد لیا ہے، اور ممکن ہے کہ نماز فجر کے لئے اٹھنے سے اور وضو کرنے سے بھی شیطان کی یہ گرہیں کھل جائیں، «والعلم عند الله»، ہمیں گرہ کی تاویل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، درحقیقت شیطان یہ گرہیں لگاتا ہے اور بعضوں نے تاویل کی اور اس سے غفلت کی رسی مراد لی، اور گرہوں سے اس غفلت کو مضبوط کر دینا، اور رات کے لمبی ہونے کا احساس دلا دینا مراد لیا ہے، جب کہ صحیح بخاری کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ جب وہ اٹھنے کا ارادہ کرتا ہے تو شیطان اس سے کہتا ہے کہ ابھی رات بہت ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا گیا جو صبح تک سوتا رہا، آپ نے فرمایا: ”شیطان نے اس شخص کے کانوں میں پیشاب کر دیا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التہجد 13 (1144)، بدأالخلق 11 (3270)، صحیح مسلم/المسافرین 28 (774)، سنن النسائی/قیام اللیل 5 (1609، 1610)، (تحفة الأشراف: 9297)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/475، 427) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کان میں پیشاب کرنا حقیقت ہے گرچہ ہمیں اس کا ادراک نہیں ہوتا، اور بعضوں کے نزدیک کنایہ ہے اس بات سے کہ جو شخص سویا رہتا ہے اور رات کو اٹھ کر نماز نہیں پڑھتا تو شیطان اس کے لئے اللہ کی یاد میں رکاوٹ بن جاتا ہے، اسی کو شیطان کے آدمی کے کان میں پیشاب کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم فلاں شخص کی طرح نہ ہو جانا جو رات میں تہجد پڑھتا تھا، پھر اس نے اسے چھوڑ دیا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التہجد 19 (1152)، صحیح مسلم/الصیام 35 (1159)، سنن النسائی/قیام اللیل 50 (1764)، (تحفة الأشراف: 8961)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/170) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلیمان بن داود علیہما السلام کی ماں نے سلیمان سے کہا: بیٹے! تم رات میں زیادہ نہ سویا کرو اس لیے کہ رات میں بہت زیادہ سونا آدمی کو قیامت کے دن فقیر کر دے گا“۔
تخریج الحدیث: «(تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3094، ومصباح الزجاجة: 467) (ضعیف)» (اس حدیث کو ابن الجوزی نے موضوعات میں ذکر کیا ہے، اور کہا ہے: «لایصح عن رسو ل اللہ، ویوسف لایتابع علی حدیثہ» ، یہ رسول اللہ ﷺ سے صحیح نہیں ہے، اور یوسف کی حدیث کا کوئی متابع نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف قال البوصيري: ”ھذاإسناد ضعيف،لضعف يوسف بن محمد بن المنكدر وسنيد بن داود‘‘ يوسف بن محمد ابن المنكدر: ضعيف (تقريب: 7881) و قال العراقي فيه: ضعفه الجمهور (تخريج الإحياء 244/3) وسنيد: ضعيف إلخ (التحرير: 2646) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 424
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص رات میں زیادہ نمازیں پڑھے گا، دن میں اس کے چہرے سے نور ظاہر ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2336، ومصباح الزجاجة: 468) (موضوع)» (ابن الجوزی نے اس حدیث کو باطل کہا ہے، (2/109- 110) اس کی سند میں ثابت بن موسیٰ ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4644)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
موضوع ثابت بن موسي الزاهد: ضعيف الحديث (تقريب: 831) وأدخل قول شريك في الخبر كما قال ابن حبان (المجروحين 1/ 207) و أورده ابن الجوزي في الموضوعات (109/2،110) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 424
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے، اور انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں، تو لوگوں کے ساتھ آپ کو دیکھنے کے لیے میں بھی آیا، جب میں نے کوشش کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھا، تو پہچان لیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے، پہلی بات آپ نے جو کہی وہ یہ تھی کہ ”لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، اور رات کو نماز پڑھو، جب کہ لوگ سوئے ہوں، تب تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/القیامة 42 (2485)، (تحفة الأشراف: 5331)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/451)، سنن الدارمی/الصلاة 156 (1501)، (حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 3251) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
|