كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 196. . بَابُ: مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي مَسْجِدِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ باب: بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی فضیلت۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: ”اللہ کے رسول! ہم کو بیت المقدس کا مسئلہ بتائیے“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو حشر و نشر کی زمین ہے، وہاں جاؤ اور نماز پڑھو، اس لیے کہ اس میں ایک نماز دوسری مسجدوں کی ہزار نماز کی طرح ہے“ میں نے عرض کیا: اگر وہاں تک جانے کی طاقت نہ ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تم تیل بھیج دو جسے وہاں کے چراغوں میں جلایا جائے، جس نے ایسا کیا گویا وہ وہاں گیا“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 14 (457)، (تحفة الأشراف: 18087، ومصباح الزجاجة: 497)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/463) (منکر)» (بوصیری نے کہا کہ بعض حدیث کو ابوداود نے روایت کیا ہے، شیخ البانی نے اس حدیث کو پہلے (صحیح ابو داود 68) میں رکھا تھا، بعد میں اسے ضعیف ابی داود میں رکھ دیا، ابوداود کی روایت میں بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا ذکر نہیں ہے، وجہ نکارت یہ ہے کہ زیتون کا تیل فلسطین میں ہوتا ہے، حجاز سے اسے بیت المقدس بھیجنے کا کیا مطلب ہے؟ نیز صحیح احادیث میں مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ہزار نمازوں ہے، جب کہ بیت المقدس کے بارے میں یہ ثواب صحاح میں نہیں وارد ہوا ہے)
قال الشيخ الألباني: منكر
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب سلیمان بن داود علیہما السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے، تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں، ایک تو یہ کہ میں مقدمات میں جو فیصلہ کروں، وہ تیرے فیصلے کے مطابق ہو، دوسرے مجھ کو ایسی حکومت دے کہ میرے بعد پھر ویسی حکومت کسی کو نہ ملے، تیسرے یہ کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز ہی کے ارادے سے آئے وہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہو جائے جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو باتیں تو اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو عطا فرمائیں، مجھے امید ہے کہ تیسری چیز بھی انہیں عطا کی گئی ہو گی“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/المساجد 6 (694)، (تحفة الأشراف: 8844، ومصباح الزجاجة: 497)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/176) (صحیح)» (دوسری سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عبید اللہ بن الجہم مجہول الحال ہیں، اور ایوب بن سوید بالاتفاق ضعیف، بوصیری نے ذکر کیا ہے کہ بعض حدیث کو ابوداود نے ابن عمرو کی حدیث سے روایت کیا ہے، ایسے ہی نسائی نے سنن صغری میں روایت کی ہے)، یہ حدیث ابوداود میں ہمیں نہیں ملی، اور ایسے ہی مصباح الزجاجة کے محقق د.شہری کو بھی نہیں ملی (502) نیز نسائی نے کتاب المساجد باب فضل المسجد الأقصی (1؍8) میں اور احمد نے مسند میں (2؍176) تخریج کیا ہے ابن خزیمہ (2؍176) اور ابن حبان (1042 مواردہ) اور حاکم (1؍20؍21) نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے)
وضاحت: ۱؎: سلیمان علیہ السلام کا حکم ہونا اس آیت سے معلوم ہوتا ہے: «ففهمناها سليمان وكلا آتينا حكما وعلما» (سورة الأنبياء: 79)، «فسخرنا له الريح تجري بأمره رخاء حيث أصاب» (سورة ص: 36) نیز ہوا پر اور جن و انس پر اور چرند و پرند سب پر ان کی حکومت تھی، جیسا کہ اس آیت میں موجود ہے: «والشياطين كل بناء وغواص» (سورة ص: 37) اور تیسری بات کی صراحت چونکہ قرآن میں نہیں ہے اس لئے نبی اکرم ﷺ نے اس میں فرمایا ”مجھے امید ہے کہ تیسری چیز بھی انہیں عطا کی گئی ہو گی“۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تین مساجد: مسجد الحرام، میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد الاقصیٰ کے علاوہ کسی اور مسجد کی جانب (ثواب کی نیت سے) سفر نہ کیا جائے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 95 (1397)، (تحفة الأشراف: 13283)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/فضائل الصلاة 1 (1189)، سنن ابی داود/الحج 98 (2033)، سنن النسائی/المساجد 10 (701)، موطا امام مالک/الجمعة 7 (16)، مسند احمد (2/234، 238، 278، 501)، سنن الدارمی/الصلاة 132 (1461) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین مساجد: مسجد الحرام، مسجد الاقصیٰ اور میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف (ثواب کی نیت سے) سفر نہ کیا جائے“۔
تخریج الحدیث: «حدیث أبي سعید الخدري أخرجہ: صحیح البخاری/فضل الصلاة في مکة والمدینة 6 (1188، 1189)، صحیح مسلم/المناسک 74 (827)، سنن الترمذی/الصلاة 127 (326)، (تحفة الأشراف: 4279)، وحدیث عبد اللہ بن عمر و بن العاص قد تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8913)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/7، 34، 45، 51، 59، 62، 71، 77) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|